سیاست دان اور آمر کا فرق اور تاریخ پر اٹھتا ہوا سوال
ایوب خان اس ملک کا پہلا ڈکٹیٹر تھا اس کا تعلق ہری پور کے ایک عام گھرانے سے تھا لیکن دس سال تک بزور قوت حکومت کرنے اور تین دریا ھندوستان کو دان کرنے کے بعد وہ ”باعزت“ طور پر گھر چلے گئے تو آمریت کی روایت اور اپنے بیٹوں کے لئے انڈسٹریل ایمپائر (گندھارا انڈسٹریز) کے علاوہ گوہر ایوب سے عمر ایوب تک ہمارے لئے وراثت میں چھوڑ گئے۔ اور پھر ٹرکوں پر “تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد” جیسے دلفریب جملے کے ساتھ اس کے تصاویر “کہیں” سے اچانک نمودار ہو کر نا سمجھ اور بے خبر عوام کا دل بہلانے لگے۔
ذوالفقار علی بھٹو بے حوصلہ موسموں اور پُر آشوب حالات میں وزیراعظم بنے تو پہلا کام یہ کیا کہ بد ترین دشمن ہندوستان کی قید سے وطن کے نوے ہزار بیٹوں کو چھڑا کرلے آئے اور آمریتوں کے شکار ملک کو ایک متفقہ آئین دیا لیکن یہی محسن ایک تاریک رات کو پھانسی پر جھول گئیے اور اس کی بیوی اور بیٹی کو وراثت میں قید و بند ہی ملی، صنم بھٹو کے علاوہ تمام بہن بھائی غیر طبعی موت مرے، بے نظیر بھٹو ساری عمر آمریتوں سے ٹھکراتی رہی اور پھر ایک سڑک پر خون میں لت پت اس کی لاش پڑی تھی کیونکہ وہ ایک سیاستدان تھی اور اس ملک میں صرف عمران خان یا شیخ رشید مارکہ سیاست کی اجازت ہے۔
یا سزا بیٹے سے تنخواہ نہ لینے جیسے “عظیم جرم ” پر کاٹتا رہے گا کیونکہ وہ قمیض شلوار میں ملبوس اور عوام سے ووٹ لیتا ایک سیاستدان ہی ہے، لیکن سیاستدان اور آمر کا یہ فرق بھی یاد رہے کہ جہاں سے ڈکٹیٹر مشرف خوفزدہ ہو کر بھاگ رہا تھا وہاں “یہ غدار” مشکل حالات میں بیٹی سمیت سزا کاٹنے ملک واپس آرہا تھا.
وہ زمانہ بھی تو کب کا چلا گیا جب ذہن سازی ریڈیو پاکستان یا پی ٹی وی کے خبرنامے کے ذریعے کروائی جا تی تھی بلکہ ٹرکوں کے پیچھے کسی ڈکٹیٹر کی تصویر اور اس پر لکھے کسی دلفریب جملے کے ذریعے بھی۔ کیونکہ یہ اس زمانے میں آسانی کے ساتھ قابو آنے والا چلتا پھرتا میڈیا تھا۔
Subscribe
0 Comments