پاکستان کی آزادی کے لئے ہمارے اکابرین نے بڑی قربانیاں دیں۔ بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کے بعد پاکستان آزادہوا اگر ہم آزاد نہ ہوتے آج یقینا ہم بھی مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی طرح ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے۔وہاں پر جس طرح اقلیتوں کے ساتھ رویہ رکھا جاتا ہے۔ شاید ہم بھی اس کا حصہ ہوتے لیکن میں سلام پیش کرتا ہوں۔عظیم رہنما قائد اعظممحمد علی جناح کو جنہوں نے اتنا بڑاوطن ہمارے حوالے۔یہ الگ بحث ہےہم اس وطن کی حفاظت نہ کر سکے۔
ہر سال اگست کا مہینہ آتا ہےاور گزر جاتا ہے۔ ہر سال ہمیں سرکاری سطح پر وہی گھسے پٹے بیانات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔جو گزشتہ کئی سالوں سے پڑھ رہےہیں یعنی ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنائیں گے۔قائد اعظم محمدعلی جناح کے خوابوں کی تعبیر ہوگی۔ دنیا بھر میں پاکستان کو ایک پہچان دیں گے۔ یہ وہ چند سرکاری بیانات ہیں جو شاید گزشتہ کئی سالوںسے ایک مصنف سے لکھوا جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری بیانات کو تبدیل کرنے کے لئے مصنف بھی تبدیل نہیں کیا۔یقینا اگر مصنف تبدیلکیا جاتا تو بیانات بھی بدل جاتے لیکن وہی بیانات جن کو عوام اب پڑھنا بھی نہیں چاہتی۔ کیونکہ عوام عاجز آچکی ہے۔
اس طرح کے کھوکھلےبیانات سے۔ آزادی کے 73سال بہت ہوتے ہیں۔ جن قوموں نے ترقی کرنی ہوتی ہے وہ تو بیس سالوں میں اتنی ترقی کر جاتے ہیں۔ کہ انسان کیسوچ دنگ رہ جاتی ہے۔لیکن یہاں پر اتنے سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔چہرے بدل بدل کر نئے پارٹی لیبل کے ساتھ عوام کے سامنے آتے رہےاور عوام کو جھوٹے سپنے دکھاتے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد جو بھی آیا اس نے اپنا چورن بیچا۔ماضی کے رہنماؤں کو برا بھلاکہا سارا ملبہ ان پر ڈالا اور پھر اپنے اپنے اثاثے بنانے میں لگ گئے۔ آج تک کسی نے عوام کے مسائل کی بات نہیں کی۔ عوام کی تکالیف کوکسی نے نہیں سمجھا۔جو بھی آیا عوام کے نام پر قرض لیتا گیا اور عوام کو اتنا مقروض کر دیا اور عوام مقروض کیوں نہ ہوتی اس ملک میںعجب نظام ہے پہلے کروڑوں روپے لگا کر روڈ بنایا جاتا ہے۔ جب روڈ تیار ہو جاتا ہے پھر سوئی گیس والے پائپ لائن ڈالنے کے لیے اسیروڈ کو اکھیڑ دیتے ہیں اور اپنی پائپ لائن ڈال کر رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد واٹر سپلائی والے رہی سہی کسر پوریکر دیتے ہیں اور جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ سیوریج لائن والے پوری کر دیتے ہیں۔
یہ نظام ہے پورے پاکستان کا گھر میں ایک چھوٹا ساباورچی خانہ بنانا ہو تو 15 مشیروں سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ مستریوں کی رائے لی جاتی ہے۔عجب پاکستان کا نظام چلانے والے لوگ ہیں۔کروڑوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔لیکن کسی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوت۔ ترقی یافتہ قومیں اگلے کئی سو سال کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔اگر یقین نہ آئے تو اسی پاکستان میں انگریز کے بنائے ہوئے بڑے بڑے پل ,ریلوے اسٹیشن اور ریلوے ٹریک دیکھ لیں۔ یقین آ جائے گا پاکستانکی حالت دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے۔ جیسے اس ملک کو چلانے والے اس ملک کے باسی نہ ہوں۔بلکہ وہ تو کسی دشمن ملک سے ہوآئے ہوں ۔اور اس ملک خداداد پاکستان کی عوام سے کوئی بدلہ چکا رہے ہوں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ میں ہر روز ایک نیاحادثہ پیش آتا ہے۔
نور مقدم کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔وزیراعظم پاکستان اس کا نوٹس لیتے ہیں۔ چند دن پہلے انہوں نے اسی طرح کانوٹس عثمان مرزا کیس کا بھی لیا تھا۔ چند دن گزرتے ہیں ایک معصوم عورت کو اور اس کے بیٹے کو قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہاہے۔آزادی کے 73سال مکمل ہو چکے ہیں۔ مگر آج ماں اپنے بچوں کو چوہے مار گولیاں دینے پر مجبور۔ والد اپنے بچوں کو نہر میں پھینکنےپر مجبور ہے۔ کیا عظیم قائد نے یہ وطن اس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا۔افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں کس چیز کی کمی ہے۔ سب کچھ توپاکستان میں ہے لیکن پھر بھی پاکستان ترقی کیوں نہیں کر رہا۔ پاکستان میں غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔کیا قائد اعظممحمد علی جناح نے یہ وطن صرف چودہ اگست کے بیانات کے لیے حاصل کیا تھا یا اس میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے حقوق کیفراہمی کے لیے حاصل کیا تھا۔
پاکستان زندہ باد۔
The contributor, Javed Malik, is a columnist and humans rights activist. With a special interest in social welfare, health, and education, he especially enjoys writing on current affairs. He currently resides in Malaysia.
Javed can be reached on his Twitter account here.