spot_img

Columns

Columns

News

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 6 پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے جبکہ کیروسین آئل کی قیمت میں11 روپے 15 پیسے کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

ذرائع کے مطابق آئین کی متعدد شقوں میں ترمیم کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججز کے پینل سے کرنا، ہائیکورٹ کے ججز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے اصلاحات، اور آئینی عدالت میں اپیل کے نئے نظام کی تجویز شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...
Opinionچودھری نثار کا انٹرویو
spot_img

چودھری نثار کا انٹرویو

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

آج سے تقریبا تین عشرے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر پہلی بار سیاست دانوں کے لائیو انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا تو پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کے پینلز ان کے انٹرویو کرنے لگے کیونکہ تب الیکٹرانک میڈیا (پرائیویٹ نیوز چینلز )موجود نہ تھے۔

سرکاری ٹی وی پر ہوتے ان انٹرویوز میں “حالات کے پیش نظر” بد تمیزی یا خوشامد ہمیشہ اپنی انتہا کو چھوتے مثلا ایک مخصوص اشارے پر لاہور کے ایک بدنام زمانہ ایڈیٹر نے اضغر خان مرحوم کے ساتھ جو کیا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن انہی دنوں سندھ پر غلام اسحاق خان ٹولے نے جام صادق علی کو ایک سیاسی درندگی کے ساتھ مسلط کیا تھا جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔

جام صادق کو ایک دن پی ٹی وی پر انٹرویو کے لئے بلایا گیا تو ظاہر ہے کہ صحافتی پینل کا انتخاب بھی جام صادق کی شخصیت کو مدنظر رکھ کر ہی بنانا تھا اس لئے کراچی کے ایک سینئر لیکن حد درجہ چاپلوس اور خوشامدی صحافی کو جام صادق کے سامنے بٹھایا گیا جنہوں نے انٹرویو کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ محترم ناظرین اس وقت ھمارے ساتھ سندھ دھرتی کےلئے رحمت خداوندی ہمارے اور آپ سب کے دلوں میں بسنے والے ایک عظیم رہنما اور کمال کے منتظم  جام صادق علی خان صاحب موجود ہیں  جن سے میں گزارش کروں گا کہ پہلے سوال کی اجازت دی جائے۔

اب آپ آگے انٹرویو کا اندازہ خود ہی لگاتے جائیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صحافت کسی سے مرعوب ہونے یا جذباتی بننے کو ہرگز افورڈ نہیں کرتا بلکہ حقائق کی تلاش اور اس تک رسائی ہی اصل صحافت ہے۔

یہ تمہید اس لئے باندھی کہ دو دن پہلے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

جس کے حوالے کچھ خالص پیشہ ورانہ سوالات میرے ذہن میں گونجے۔

میں متعلقہ صحافی کے کردار پر ہرگز کوئی سوال نہیں اٹھا رہا ہوں بلکہ میر ے سوال پیشہ ورانہ اور تکنیکی معاملات سے جڑے ہیں۔

کیا انٹرویو کے دوران چودھری نثار علی خان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کوئٹہ بم دھماکے میں بلوچستان کے سر کردہ وکلاء کی شہادت کے بعد قائم کئے گئے جسٹس فائز عیسی کمشن نے آپ (چودھری نثار ) کے حوالے سے بہت ایم سوالات  اٹھائے تھے مثلا یہ کہ بحیثیت وزیر داخلہ  آپ انتہا پسند عناصر کو کیوں ملتے رہے ؟ یا آپ سیکیورٹی انتظامات کرنے میں ناکام کیوں  ہو گئے تھے۔

کیا یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ نے جسٹس فائز عیسی رپورٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کیوں کی۔

کیا یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کے سابق لیڈر نواز شریف کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا اس پر آپ احتجاج کرنے کی بجائے مشکل وقت میں اپنے لیڈر کے خلاف مسلسل کیوں بولتے رہے؟

کیا جج ارشد ملک کے اعترافی ویڈیو کے حوالے سے چودھری صاحب کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی؟

کیا مالی اور انتظامی حوالے سے نواز شریف اور عمران خان کی حکومتوں کا تقابل کر کے چودھری نثار کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی؟. 

کیا یہ اہم سوال پوچھا گیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے دھرنے کے دوران ڈی چوک پر مظاھرین کو اس لئے روکنے کی مخالفت کی کیونکہ وزیراعظم کو اپنے ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ آپ کو پھنسانے کے لئے  ایک اور ماڈل ٹاؤن کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے. کیا بحیثیت وزیر داخلہ آپ کے علم میں یہ بات نہیں تھی؟

کیا جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کے حوالے سے کوئی سوال ہوا؟

کیا پاپا جونز سکینڈل پر چودھری صاحب کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی؟

اگر چودھری نثار علی خان ایک طویل عرصے کے بعد انٹرویو نگار کے ھاتھ لگے تھے (حالانکہ واقفان حال کو تمام  پس منظر کا علم ہے) تو کیا  کشمیر پر بد ترین  پسپائی کے سلسلے میں سوال پوچھا گیا؟

کیا یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ نواز شریف کے جی ٹی روڈ ریلی کی مخالفت کن بنیادوں پر کر رہے تھے۔ اور آپ کا مقصد کیا تھا؟  

کیا یہ سوال ہوا کہ آپ ھر جگہ اور ہمیشہ خود کو اقدار اور رواداری کا علم بردار بنا کر پیش کر رہے ہیں لیکن یہ کیسے اقدار اور روایات تھے کہ مشکل دنوں میں نہ صرف تیس سالہ رفاقت کو پلک جھپکتے میں  خیر باد کہہ دیا بلکہ آپ کے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کے لیڈر اپنی بیٹی کے ساتھ  قید و بند  کاٹ رہے تھے تو آپ کسی دلجوئی اور تسلی کے لئے بھی کھبی ملنے نہیں گئے؟

چودھری صاحب حسب معمول میں میں میں کرتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ دھرنے پر اختلاف کے سبب میں نے استعفی دیا لیکن فاضل صحافی نے اس سوال کی ہمت نہیں کی کہ ٹوک دیتا کہ پھر اپنے منصب سے آخر تک چمٹے کیسے رہے؟

موجودہ حکومت کی کرپشن بد انتظامی اور خوفناک نا کامیوں پر سوال کرنے کی بجائے نواز شریف اور عمران خان کی شخصی تقابل کا سوال ہوا اور جواب بھی وہی ملا جس مقصد کے لئے سوال کیا گیا تھا بلکہ چودھری صاب نے تو عمران خان کے کسی جذباتی پیروکار سے بھی بڑھ کر آصف زرداری کو بھی نواز شریف پر فوقیت دلا دی۔

ایک موقع پر چودھری صاب سے یہ بے تکا سوال بھی کیا گیا کہ نواز شریف کے ساتھ واقعی آپ نے رابطے کی کوشش کی ؟ ظاہر ہے کہ چودھری صاحب نے انکار ہی کرنا تھا  لیکن اس بات کو سمجھنے میں کسے دیر لگی کہ در حقیقت یہ سوال نواز شریف کے انکار سے چودھری نثار کی ادھڑی ہوئے انا کی بخیہ گری کرنے کی بچگانہ سی کوشش ھی تھی  جس سے فائدہ حاصل کرنے  کی بجائے طنز اور مذاق ہی برآمد ہوا. ایک سوال متحرک ہونے کے حوالے سے بھی ہوا لیکن یہ بھول گئے کہ نواز شریف سے علیحدگی اور جی ٹی روڈ ریلی کے بعد چودھری صاحب کے متحرک ہونے کا یہ عالم ہے کہ بمشکل جیتے صوبائی اسمبلی کا حلف بھی تین سال تک نہ اٹھا سکے تھے۔

گویا جو سوالات مطلوب تھے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا لیکن اگلے انتظام اور منظر نامے کی خاطر جن سوالات کا پوچھنا تھا اور جو جوابات حاصل کرنے تھے اسی کےلئے در حقیقت  ایک سٹیج ترتیب پایا تھا۔

در اصل اس انٹرویو کے ذریعے بہت سے اھداف  کا حصول ہی مقصد  تھا لیکن “اصل مقصد” ابھی سب کی نگاہوں سے پنہاں ہے۔

“کھیل ” تو پہلے ھی راونڈ میں انٹرویو نگار کے کانفیڈنس لیول اور باڈی لینگویج کی وجہ سے فلاپ ہونے کے واضح  اشارے دینے لگا تھا لیکن  رہی سہی کسر سو شل میڈیا نے یوں پورا کیا کہ کانوں کو ھاتھ لگانے پڑے۔

میں نے بار بار لکھا کہ موجودہ دور میں بالخصوص  صحافت  قطعی طور پر کسی ڈرامے بازی اور جھوٹ کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ میدان میں موجود حد درجہ با اثر سوشل میڈیا لمحوں میں بخئے ادھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اور اس سلسلے میں بھی ردعمل ایسا ھی آیا۔

ضروری یہ بھی نہیں کہ غلطی کرنے والا ھر صحافی کرپٹ اور بکاو ہی ہو بلکہ بعض اوقات غیر ضروری مرعوبیت یا جذباتی پن بھی غلطی اور بدنامی کا محرک بن سکتا ہے۔

اور اس کا فائدہ اٹھانے والے مدتوں سے صحافتی مارکیٹ میں اپنے اوپر مصنوعی خول چڑھائے شکار کی تلاش میں پھر رہے ہیں۔

پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہی دانشمندی ہے ورنہ آپ کا کیریئر داو پر لگ جائے گا۔

شکاریوں کا کیا جاتا ہے کیونکہ۔

تم نہیں اور سہی اور سہی اور سہی۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: