سادہ دل عمران؟
میرا ہمیشہ سے یہی موقف ریا ہے کہ عمران خان نے کرکٹ سے شوکت خانم ہسپتال اور سیاست سے وزارت عظمی تک صرف اپنے ذاتی مفادات کی جنگ ھی لڑی ہے اور آس سلسلے میں اس نے دوسروں کی احسان مندی عزت حق اور میرٹ کا خیال رکھنے کی بجائے ایک بے رحمی کے ساتھ ہمیشہ اس کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے۔
ایلن بارڈر ،رانا ٹونگا ،دھونی ، سٹیو وا ،اور مائیکل کلارک بھی بحیثیت کپتان کرکٹ ورلڈ کپ جیت چکے ہیں ،لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی جیت کو سیاسی سٹنٹ نہیں بنایا نہ اس کا کوئی سیاسی یا سماجی فائدہ اُٹھایا کیونکہ یہ لوگ نہ صرف اچھے سپورٹس مین تھے بلکہ سپورٹس مین سپرٹ سے آگاہ بھی تھے جبکہ دوسری طرف عمران خان اس کامیابی کو شوکت خانم ہسپتال ‘ چندوں, (جس سے فارن فنڈنگ کیس برآمد ہوا ) دولت, سیاست دھرنوں ،جلاؤگھیراؤ ،مارو پیٹو تک بھی لے کر آئے۔
اب آتے ہیں اُنیس سو چھیانوے میں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سولہ سال سے صاف چلی شفاف چلی تحریک انصاف بھی موجود تھی اور اس کا ڈٹ گیا کپتان بھی پھر یہ “انقلابی کارکن “ کس غنودگی میں چلے گئے تھے جو تیس اکتوبر دو ھزار گیارہ کی رات اچانک نمودار ہو گئے ،لیکن چلو یہ سوال تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
اب عمران خان کو یہ بات سمجھ آنے لگی تھی کہ نواز شریف سے الیکشن جیتنا اس کے بس کی بات نہیں اس لئیے اس نے نئیے “راستوں “کا انتخاب کیا۔
نواز شریف چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے روایتی حلیف رہے ہیں اور یہ دونوں (نواز شریف اوراسٹیبلشمنٹ) اختلافات کے باوجود بھی کسی نہ کسی حد تک ایک دوسرے کے لئے قابل قبول تھے ،مثلاً نواز شریف نے فوجی سربراہ جھانگیر کرامت کو برطرف کیا تھا لیکن فوج نے برداشت بھی کیا تھا اور مان بھی لیا تھا اسی طرح مشرف کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کا خاتمہ اٹک جیل اور جلا وطنی بھی نواز شریف کو پوائینٹ آف نو ریٹرن پرکھبی بھی نہیں لے کر گئی بلکہ اس نے اپنی سیاسی گولہ باری ھمیشہ پرویز مشرف کی ذات تک محدود رکھی تھی۔
نقصانات کی فہرست تو طویل بھی ہے اور خوفناک بھی لیکن فائدہ صرف ایک شخص نے اُٹھایا اور اس کا نام عمران خان ہے جو وزیراعظم ھاؤس میں بیٹھا اور بیٹھتے ہی مخصوص ٹائمنگ کے ساتھ ایسٹبلشمنٹ کے اس مورچے کی طرف بڑھا جہاں مقتدر قوتوں کی اصل طاقت پوشیدہ ہے۔
لیکن کیا کریں کہ اب بھی بعض لوگ بضد ہیں کہ عمران خان بہت سادہ آدمی ھے اتنا سادہ کہ اس کی قمیض میں دو دو موریاں ہوتی ہیں اور ھاتھ میں تسبیح بھی۔
Subscribe
0 Comments