آج اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جو حق اور سچ، مظلوموں کی حمایت میں اور ظالم کے جبر کے خلاف میدان عمل میں جدوجہد کرتے نظر آئیں گے۔ یقیناً جدوجہد کا یہ راستہ کٹھن، مشکلات سے بھرا ہوا ضرور ہے لیکن تاریخ میں ہمیشہ وہی شخصیات زندہ رہتی ہیں جنہوں نے سچ کا بول بالا اور مظلوم کا ساتھ دیا ہوگا کیونکہ اس دنیا میں ظالم اور جبر کرنے والے لوگ بہت آئے لیکن تاریخ نے انکو اپنا حصہ بنانے کی بجائے کوڑے دان کا حصہ بنا دیا ہے اور قدرت کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ظالم کا سر ہمیشہ نیچا ہی رہے گا کیونکہ پرودگار! ظالم لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
آج میں آپ کو ایک ایسی شخصیت کے بارے میں آگاہ کرتا چلوں جو پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بہت متحرک ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہے جن کی والدہ موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے عہدے پر فائز ہیں اور بجائے وہ اپنی والدہ کے پروٹوکول اور سرکاری پیسوں پر عیاشیاں کرتیں انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ شخصیت ایمان زینب مزاری ہیں جو پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور ان کی والدہ شیریں مزاری وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کی حصہ ہیں اور انسانی حقوق کی وزیر بھی ہیں۔
ایمان زینب مزاری نے اپنی قانون کی ڈگری جامعہ ایڈنبرا یوکے (University of Edinburgh UK) سے حاصل کی اور یقیناً انکے اساتذہ نے انکی بہترین تربیت کی ہوگی جس کی بدولت وہ پاکستان میں اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان اور برطانیہ کے تعلیمی نظام میں بہت فرق ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے کم ایسے قانون دان دیکھے ہیں جنہوں نے پاکستان سے قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد انسانی حقوق کے لیے کام کیا ہو، یہی بنیادی مسئلہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں مظلوم اور سچ کیساتھ کھڑا ہونا نہیں سکھایا جاتا بلکہ ظالم اور جابر لوگوں کی آواز پر لبیک کہنا سکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایمان مزاری نے پاکستان کی کسی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہوتی اور وہ اپنے ضمیر کے برعکس فیصلہ کرتی تو دوسرے وڈیروں اور وزیروں کی اولادوں کی طرح آج وہ اپنی والدہ کے پروٹوکول کو انجوائے کر رہی ہوتیں اور سرکاری پیسوں پر خوب سیر سپاٹے کرتیں لیکن غیر ملکی جامعات طلباء کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ انکی تربیت پر بھی کافی توجہ دیتی ہیں جس کی وجہ سے انکے تعلیم کا معیار ہم سے بہت زیادہ بہتر ہے اور اسی تعلیم و تربیت کی جھلک ایمان مزاری میں ہمیں اس وقت نظر آتی ہے جب وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی والدہ کی وزارت کے مخالف کھڑی ہوتی نظر آتی ہیں۔
ایمان مزاری نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان آ کر سیاست میں اپنی والدہ کا ساتھ نبھایا۔ چونکہ انکی والدہ پاکستان تحریک انصاف کی اہم رکن ہیں تو انہوں نے بھی اپنی والدہ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے لیے جدوجہد شروع کی اور عمران خان کے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ایمان مزاری سمجھتی تھیں کہ عمران خان ہی پاکستان میں وہ واحد سیاستدان ہیں جو قوم کی بہتری کی بات کرتے ہیں، کرپشن کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، امن و امان قائم کرنے کی بات کرتے ہیں، پاکستان میں قانون نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں، آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بات کرتے ہیں اور غریب طبقے کی بہتری کا سوچتے ہیں اسی لیے وہ عمران خان کے ہر جلسے، ہر ریلی، ہر کنونشن اور ہر احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی اور عمران خان کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتی تاکہ وہ جو وعدے قوم کے ساتھ کر رہے ہیں ان پر عمل درآمد کرکے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔ لیکن جب عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد قوم سے کیے گئے وعدوں کو نبھانے کی بجائے یوٹرن لینا شروع کیا تو چند نظریاتی کارکنان کو اپنی محنت ضائع ہوتی نظر آنا شروع ہوئی اور جب عمران خان نے یہ کہہ دیا کہ کوئی بھی اس وقت تک بڑا لیڈر نہیں بن سکتا جب تک وہ یوٹرن نہ لے تو نظریاتی کارکنان نے بھی یوٹرن لے کر اپنے راستے کو عمران خان سے علیحدہ کر لیا۔
آج جب وہ نظریاتی کارکنان عمران خان کو انکے قوم کے ساتھ کیے گئے وعدے یاد دلاتے ہیں تو انکی سوشل میڈیا ٹیم انکے خلاف گھٹیا ٹرینڈز اور کمپین چلاتی نظر آتی ہے۔ کبھی انکو غدار ٹھہرایا جاتا ہے، کبھی انکو ملک دشمن ایجنٹ کہا جاتا ہے اور کبھی انکو ملک دشمن عناصر کے آلہ کاروں کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے لیکن انکے قدم ڈگمگائے بغیر منزل مقصود پر پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو وعدے ہم نے قوم کے ساتھ کیے تھے انکی تکمیل کے لیے ہم ہر ہر ممکن کوشش کریں گے۔
آج پاکستان میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانا، لوگوں کو لاپتہ کرنا معمول بن گیا ہے اور ہمیں آئے روز سڑکوں پر نوجوان بچے، بچیاں اور بوڑھے اپنے پیاروں کی حوالگی کے لیے آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ و لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی این جی اوز تو موجود ہیں لیکن وہ اس طرح آواز بلند نہیں کرتی جس طرح آواز بلند کرنے کا حق ہوتا ہے کیونکہ انکو بھی مختلف ذرائع سے مشکلات اور تھریٹس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مدثر نارو کی جبری گمشدگی کے متعلق آواز بلند کی گئی تو عدالت بھی قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور لاپتہ افراد کی جلد بازیابی کے لیے اداروں کو حکمنامہ جاری کیا گیا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد پولیس کے آفیسر ظہور احمد کی جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھائی گئی تو ادارے بھی ظہور احمد کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے مجبور ہوگئے۔ اسی طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں جو تاریخ میں درج ہوچکے ہیں جن کو پہلے اداروں نے زبردستی لاپتہ کیا لیکن جب اسکی بازیابی کے لیے آواز بلند کی گئی تو اس کو رہا کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یقینی طور پر میں نے ان اہم واقعات کی روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جس طرح ایمان مزاری کو ذاتی طور پر کوشش کرتے دیکھا ہے تو شاید ہمیں معاشرے میں ایسا کوئی فرد مل سکے۔ اگر اس نیک کام کو سرانجام دینے کے لیے انکا اپنی والدہ سے اختلاف رہتا ہے تو اختلاف رہنے دیجئیے کیونکہ اگر پروردگار! کسی کے لاپتہ پیارے کو آپکی آواز کی طاقت اور جدوجہد سے بازیاب کرواتا ہے تو اس سے مقدس کام دنیا میں کوئی اور نہیں ہے جس کو سرانجام دے کر لوگ فخر محسوس کر سکیں۔ بہر حال اللہ تعالٰی کا آپ کے اوپر بڑا فضل و کرم ہے اور امید ہے کہ آپ اسی طرح لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتی رہے گی اور ایوانوں میں بیٹھے بےضمیروں کے ضمیر جھنجھوڑتی رہے گی۔
The contributor, Mian Mujeeb-ur-Rehman, is a chemical engineer who doubles as a columnist, having conducted research and crafted blogs for the past several years as a personality for various newspapers and websites throughout Pakistan.
Reach out to him @mujeebtalks.