spot_img

Columns

Columns

News

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ہنڈرڈ انڈکس 82 ہزار کی نفسیاتی حد عبور کرگیا

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، ہنڈرڈ انڈکس 82 ہزار پوائنٹس کی نحد بھی عبور کرگیا، سٹاک ایکسچینج 1500 سو سے زائد پوائنٹس اضافہ کے ساتھ 82 ہزار پوائٹس کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔

Russia officially confirms support for Pakistani bid to join BRICS

Russia has expressed support for Pakistan's bid to join BRICS, signaling a strategic shift in Islamabad's foreign relations as both nations seek to enhance economic ties and strengthen their partnership amid global geopolitical tensions.

پاکستان کی اقوام متحدہ کے ای گورنمنٹ ڈویلپمنٹ انڈیکس میں نمایاں ترقی

پاکستان نے اقوام متحدہ کے ای-گورنمنٹ ڈویلپمنٹ انڈیکس 2024 میں 14 درجے کی بہتری حاصل کرتے ہوئے 136 ویں پوزیشن پر جگہ بنالی ہے، جو کہ 2022 میں 150 ویں نمبر پر تھا۔ اس پیشرفت نے پاکستان کو پہلی بار "ہائی ای جی ڈی آئی" زمرے میں شامل کیا ہے، جو کہ ایک اہم سنگ میل ہے۔

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 6 پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے جبکہ کیروسین آئل کی قیمت میں11 روپے 15 پیسے کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

ذرائع کے مطابق آئین کی متعدد شقوں میں ترمیم کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججز کے پینل سے کرنا، ہائیکورٹ کے ججز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے اصلاحات، اور آئینی عدالت میں اپیل کے نئے نظام کی تجویز شامل ہیں۔
Opinionنواز شریف کی جمہوریت کب آئے گی؟
spot_img

نواز شریف کی جمہوریت کب آئے گی؟

تاریخ بتاتی ہے جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو کوئی نعرہ مستانہ لگاتا ہےابتدا میں لوگ ایسی بات پر توجہ نہیں دیتے لیکن پھر بات لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے—عمار مسعود کی تحریر

Ammar Masood
Ammar Masood
Ammar Masood is the chief editor of WE News.
spot_img

اس سماج میں ہر چیز الٹ ہو گئی ہے۔ جو ڈاکو ہیں وہ چور چور کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ جن کا کام انصاف دینا ہے وہ طاقتوروں کے جرم چھپا رہے ہیں۔ جن کو پڑھنے کی ضرورت ہے وہ بول رہے ہیں۔ جن کا شعار سیاست میں مداخلت ہے وہ مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ ہمارا سیاست  سے کوئی تعلق نہیں۔ جنکا مذہب امن کا پیامبر ہے وہ لوگوں کو تشدد پر آمادہ کر رہے ہیں۔ جنکو عوام ووٹ سے منتخب  کرتے ہیں وہ معتوب ٹھہرا دیئے گئے ہیں۔ جو مجرم ہے وہ جرم کے خلاف  تقریریں کر رہے ہیں۔ سیاستدان گیٹ نمبر چار کے بھکاری ہونے پر فخر کر رہے ہیں۔ غریب افلاس سے مر رہے ہیں اور حکومت ترقی کے نعرے لگا رہی ہے۔ قیمتیں اس سرزمین پر آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور حکمران دساور کی مثالیں دے رہے ہیں۔ یو ٹرن کو سعادت بتایا جا رہا ہے۔ جھوٹ کو سیاسی فتح  کا نام دیا جا رہا ہے۔  بولنے والوں کے منہ بند کر دیئے گئے ہیں اور چیخنے چلانے والوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جمہوری ایوانوں میں ایکسٹنشن جیسی قابل نفرت چیز کے ثمرات  بیان کیئے جا رہے ہیں۔

نہ یہ ملک ایسا تھا نہ اس کے لوگ ایسے تھے۔ حبس اور جبر کے ماحول میں سب کچھ بدل گیا ہے۔ جمہوریت بھی سیاست بھی اور انسانیت بھی۔ اب فاتح وہ ہے جس کے ہاتھ زیادہ پلاٹ لگے۔ اب سیاست دان وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کا مںظور نظر ہو۔ اب صحافی وہی ہے جو گالی گلوچ میں مہارت رکھتا ہو۔ حق گوئی اور بے باکی کا کوئی خریدار نہیں۔ سچ کا ماننے والا کوئی نہیں۔ عجیب حبس کا عالم ہے۔ عجب جبر کی کیفیت ہے۔ سچ اور جھوٹ میں تفریق ختم ہو گئی ہے۔ حق اور شر مِں حد فاصل مٹ چکی ہے۔

تاریخ میں ہم پہلی قوم نہیں ہیں جو اس قہر کا شکار ہوئے ہیں۔ ظلم کی اس روایات سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ بہت سی قومیں ذہنی اور جسمانی محکومی میں اپنی نسلیں گنوا چکی ہیں۔ یہ وہ اقوم تھیں جنہیں اس طرح کے سماج سے رہائی کا رستہ نظر نہیں آتا تھا ۔ لیکن انسان کی سرشت میں تنوع ہے۔ وہ کنوئیں کا میںڈک ساری عمر نہیں رہ سکتا۔ اس کے سر پر آہنی خود ہمیشہ دھرا نہیں رہ سکتا۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب لوگ جبر کی قوتوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ظلم کی دیواریں گرانا چاہتے ہیں۔ سوچ پر پڑی زنجیروں کو توڑنا چاہتے ہیں۔ گہرے سناٹے میں آواز بلند کرنا چاہتا ہے۔

ایسے ماحول میں جہاں مدتوں سے اندھیرا ہو وہاں روشنی دکھانے والے کو سودائی کہا جاتا ہے۔ جہاں حق بات کہنے والے کو مجذوب سمجھا جاتا ہے۔ لوگ قفس میں رہنے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہی قید خانہ انہیں اپنے گھر سا معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس قید خانے سے رہائی ہی نہیں چاہتے۔ وہ اسی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ انہیں رہائی کا شوق ہی نہیں رہتا۔

تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو کوئی آواز بلند ہوتی ہے۔ کوئی نعرہ مستانہ لگاتا ہے۔ ابتدا میں لوگ ایسی بات پر توجہ نہیں دیتے ۔ لیکن ہر سماج میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو اس آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ پھر بات لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ پھر لوگ اس آواز کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب لوگوں کو ادارک ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں اندھیرے میں گذر گئی ہیں۔ انکی سانسیں قید میں بسر ہو گئی ہیں۔ ایسے میں لوگ رہائی کا نعرہ لگاتے ہیں۔

یہی کیفیت پاکستان کی اس وقت ہے۔ کتنی دہائیاں گذر گئیں جب یہاں پر نفرت کا راج رہا۔ہمیں ہمارے لوگوں نے تقسیم کیا۔ اپنے ہی آشیانے کو آگ لگا دی۔ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھی ، زبانوں کو تالے لگائے اور دماغوں کو مقفل کر دیا۔ لوگ روشنی کی طرف ابھی بھاگ نہیں رہے درست کہنا تو یہ ہو گا کہ ابھی تک انکی آنکھوں کو روشنی دیکھنے کی استطاعت میسر ہوئی ہے۔ اس سے آگے منظر اور خوش کن ہو سکتے ہیں۔ یہ احساس ان میں پایا جا رہا ہے۔

معاشروں میں انصاف کی بنیاد جمہوریت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اسکو بے انصافی بنا کر پیش کیا گیاہے۔ ہم اس سماج میں جمہوریت کے حق میں دلیل دیتے ہوئے بھی انجانے میں آمریت کو فروغ دیتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس مضمون کے ثمرات کا ادراک ہی نہیں ہے۔ نہ ہمیں جمہوری حقوق کا پتہ ہے نہ جمہوری فرائض کی کوئی خبر ہے۔ نہ رات کے اندھیرے کا احساس ہے نہ دن کا اجالے ہمارے لئے کوئی معنی رکھتا ہے۔ ہمیں چوہتر سال میں پہلی دفعہ اس کانسپٹ سے آگائی ہوئی ہے۔ یہی اس وقت ہماری معراج ہے۔

آج نواز شریف جو کر رہا ہے کہہ رہا ہے بہت سوں کو وہ بات نہیں سمجھ آ رہی۔ کوئی اس بات کو جنوں کہتا ہے کوئی مجذوب کی بڑ قرار دیتا ہے۔ بہت سے لوگ بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔ انہیں اس بات پر شک ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے دہائیوں کا اندھیر اچھٹ جائے۔ کچھ لوگ مخمصے میں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ درانصاف ، انصاف کرنے لگے۔ ظلم کی دیواریں اچانک گر جائیں۔ اندھیرا اچانک چھٹ جائے۔

تاریخ کو دیکھیں تو یہی سبق ملتا ہے کہ ظلم کے ایوان ریت کی دیوار ہوتے ہیں۔ ایک ضرب کاری کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایک للکار کے مستحق ہوتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ نواز شریف جس تبدیلی کا ذکر رہے ہیں وہ تبدیلی کب تک آئے گی؟ انقلاب کیسے آئے گا ؟ جمہوریت کے ثمرات کیسے ملیں گے؟ لوگ سیدھے سیدھے سوال کرتے ہیں سیدھے سیدھے جواب چاہتے ہیں۔ لوگوں کے لئے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے تبدیلی اس وقت آئے گی جب لوگ خود تبدیل ہوں گے۔ سماج اس وقت بدلے گا جب بائیس کروڑ لوگ خود کو بدلنے پر راضی ہوں گے۔ جمہوریت کا سورج اس دن چمکے گا جب لوگ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا شروع کر دیں گے۔ ثمرات کی منزل تک پہنچے کے لئے ضروری ہے کہ مضمرات کو ختم کیا جائے۔ جب لوگ خود ظلم کے خلاف نکلیں تو یہ سب ممکن ہو گا۔ یقین مانیئے اب اس لمحے کے آنے میں زیادہ دیر نہیں ہے کیونکہ ظلم سے اب لوگوں کی طبیعت بھر چکی ہے۔ آمریت کے جوتے کھا کھا کر لوگ اب تھک چکے ہیں۔ سیلیکٹڈ حکمران برداشت کر کر کے اب لوگوں چیخیں نکل چکی ہیں۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: