تقریباً ساڑھے 15 سال پہلے پاکستان کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 14 مئی 2006 کو ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے میثاقِ جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس معاہدے کے نکات بہت اہم تھے اور ان نکات کو دیکھتے ہوئے خیال کیا جاتا تھا کہ یہ معاہدہ پاکستانی سیاست میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت اختیار کرے گا اور مشرف کے بعد پاکستان صحیح معنوں میں آئینی و جمہوری راستے پر گامزن ہو جائے گا۔
سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد ایک دوسرے کے خلاف ذاتی مخاصمت نکالنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گی۔
اے بسد آرزو کہ خاک شد
بہرحال آج لکھنے کا مقصد میثاقِ جمہوریت کا نوحہ پڑھنا نہیں ہے بلکہ بتانا یہ ہے کہ اس معاہدے کے کچھ ہی عرصے کے بعد بینظیر بھٹو مرحومہ کا امریکہ کے تعاون سے پرویز مشرف کے ساتھ صلح نامہ ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دبئی میں مشرف سے ملاقات بھی کی اور پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا۔
یقینی طور پر مشرف سے ہوئے معاہدے کے بعد 2008 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی یقینی اور بینظیر کے لیے ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کی راہ ہموار نظر آتی تھی۔
ہم سبھی کو یاد ہے کہ بینظیر بھٹو 8 اکتوبر 2007 کو کراچی ائرپورٹ پر اتریں اور اپنے استقبال کے لیے آنے والوں کے جلو میں ائرپورٹ سے نکلیں تو انہیں شاہراہ فیصل کارساز پل تک پہنچنے میں دس گھنٹے لگ گئے اور پھر وہ ہوا جس کی کسی کو توقع نہیں تھی اور جسے آج ہم سانحہ کارساز کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
کیا ہم تصور کر سکتے ہیں کہ 12 مئی 2007 کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں مکے لہرا لہرا کر اپنی طاقت کے دعوے کرنے والا پرویز مشرف اس سانحے کے مجرموں سے لاعلم ہو گا؟ لیکن بہرحال آج تک ان مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا بلکہ سانحہ کارساز کے مجرم ہی کیا 27دسمبر 2007 کو لیاقت باغ کے باہر ایک کامیاب جلسے کے بعد اپنی گاڑی میں سوار پرجوش بینظیر بھٹو پر فائرنگ کر کے ان کی موت کا سبب بننے والے قاتل بھی آج تک نامعلوم ہیں؛ اگرچہ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار رہی اور بینظیر بھٹو کے شوہرِ نامدار صدر پاکستان کے منصب پر فائز رہے۔
ان واقعات کو یاد کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے آپ کی یادداشت تازہ کرنی ہے یا اپنی یادداشت کا امتحان دینا ہے بلکہ اصل مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جن کے وعدوں پر اعتبار کر کے بینظیر بھٹو مرحومہ نے میثاق جمہوریت کو پس پشت ڈال دیا تھا؛ آج بھی پاکستان میں اقتدار و اختیار کی ڈوریاں انہیں کے نقش قدم پر چلنے والے ہلا رہے ہیں اور ان کے کیے وعدے اور دیے دلاسے کتنے پائیدار ہوتے ہیں؟ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
آج پھر پاکستان کی فضائیں کچھ وعدوں، کچھ دعوؤں اور پسِ دیوار ہونے والے کسی عہد و پیماں کی بازگشت سے گونج رہی ہیں. دو-طرفہ کردار وہی ہیں، ملک کے حالات بھی کم و بیش وہی ہیں، سات سال کی بجائے تین سال میں پاکستان معاشی بدحالی کی پستی میں گر چکا ہے. جو مسیحا بن کر اور تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے تھے وہ آج ساڑھے تین سال بعد بھی بس نعرے ہی لگا رہے ہیں اور چور چور کے الزامات لگاتے نفسیاتی مریض لگنے لگے ہیں. انہیں مسلط کرنے والے الزام لینے کی بجائے فیس سیونگ کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے ہیں (یہ بھی بہرحال ایک پرسیپشن ہی ہے) اور آئی ایم ایف کی بیڑیاں عوام کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے تیار ہیں۔
گزرے وقتوں میں جب مشرف مالک و مختار کہلاتا تھا؛ وار آن ٹیرر کے نام پر لگی ڈالرز کی رونق نے کسی حد تک معاشی تباہی کو روک لیا تھا لیکن لوڈشیڈنگ کا جن قابو سے باہر ہو گیا تھا اور اس جن نے بےروزگاری کی عفریت کو بےلگام کر دیا تھا۔
کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ حالات اگر 2007 میں اچھے نہیں تھے تو آج بھی اچھے نہیں ہیں۔
2007 کا پرویز مشرف بھی انا، تکبر اور رعونت میں کسی کو اپنے برابر سمجھنے کو تیار نہیں تھا اور آج کا مسلط شدہ عمران خان بھی انا اور تکبر کے حصار میں اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھنے کو تیار نہیں. ان حالات میں جب لندن میں بیٹھے نوازشریف کو سیاسی طور پر متحرک دیکھتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں کسی تبدیلی کی خبر سنتے ہیں تو پاکستانی عوام کسی مثبت تبدیلی کی آس میں پرجوش ہو جاتی ہے کہ شاید نالائقی، نااہلی، بدانتظامی اور فسطائیت کے اس کمبینیشن سے نجات ملنے کو ہے۔
لیکن
میں اپنے نادان دل کو کیسے سمجھاؤں کہ جس کی نظر 2007 میں ہونے والے مشرف بینظیر معاہدے کی طرف لوٹ جاتی ہے اور پھر بینظیر بھٹو کے انجام سے دل لرزنے لگتا ہے۔
مجھے کوئی بتائے کہ ایوب خان کا کرپشن ختم کرنے کا اعلان ہو یا ضیاء الحق کا 90 دن میں انتخابات کروانے کا وعدہ، مشرف کا احتساب کا نعرہ لگا کر میرے عزیز ہم وطنو کی تقریر ہو یا مشرف کا بینظیر سے دبئی میں کیا عہد نامہ؛ آج تک کوئی وعدہ وعدہ وفا ہوا ہے؟
تو اب “ان” کے ہرکاروں کے ساتھ ہونے والے خفیہ وعدے وعید کی کیا اوقات اور حیثیت ہو گی؟ کل کو اگر وعدہ ایفاء نہیں ہوتا تو کیا آپ بھی شاعر کی طرح غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا کا رونا رو کر چپ کر جائیں گے یا ایک بار پھر عوام کو اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی خفیہ کارروائیوں کی داستانیں سنائیں گے؟
ہونے کو تو یہ بھی ہو سکتا ہے اپنی چالوں سے شہ مات دینے والوں کو اس دفعہ شہ مات ہو جائے لیکن یاد رہے کہ قدرت مواقع بار بار نہیں دیتی. البتہ یقیناً رب کریم آپ پر مہربان ہے کہ ایک بار پھر آپ کو فیصلہ کن پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے. جہاں چت بھی آپ کی ہو سکتی ہے اور پت بھی. بس گزارش یہ ہے کہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ ضرور یاد رکھیے گا کہ غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا پڑھنے والے شاعر کا معاملہ اس کی ذات کا تھا. یہاں آپ 22کروڑ کے نمائندے ہیں اور 22کروڑ کو جوابدہ بھی. 22کروڑ جو آپ پر اعتبار کرتی ہے۔
اگر آپ کو 22کروڑ پر اعتبار نہیں بھی ہے تب بھی کسی خفیہ عہد و پیماں سے پہلے ایک بار سوچئے گا ضرور۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.