یہ بھی ایک لطیفہ ہی ہے کہ ایک ایسی حکومت جس نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور نہ ہی کوئی ترقیاتی کام شروع کیا ہے؛ اس نے اپنے وزراء کو اچھی کارکردگی کی بنیاد پر سرٹیفکیٹ بانٹے۔ ارے کوئی تو ہو جو ان سے پوچھے کہ جناب! وہ کارکردگی کہاں ہے جس کی بنیاد پر سرٹیفکیٹ بانٹے گئے؟ کچھ ہمیں بھی تو کارکردگی کی وضاحت کریں مگر یہاں پوچھے کون؟ جن کی پوچھنے کی پہلی ذمہ داری ہے وہ یا تو چھ مہینے مثبت رپورٹنگ کے بوجھ تلے آج تین سال گزر جانے کے باوجود بھی دبے ہوئے ہیں اور سچ بولتے ان کی زبانیں لکنت کھا جاتی ہیں یا پھر آزادی اظہار کی پابندیوں نے ان سے سچ بولنے کی قوت ہی چھین لی ہے۔ اور دوسرے نمبر پر ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے والے ہوتے ہیں وہ عوامی نمائندے جو اپوزیشن کی نشستوں پر اس دعوے کے ساتھ بیٹھتے ہیں کہ عوامی مفادات کا تحفظ کریں گے لیکن کیا ہی کہا جائے کہ جتنی نالائق، نکمی اور نااہل حکومت ہے اپوزیشن اس نالائقی، نکمے پن اور نااہلی میں اس سے چار قدم آگے ہی نظر آتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہائبرڈ نظام میں ایسا ہی ہوتا ہو کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن نے بھی نکمے پن میں ہی اپنی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ویسے بھی سیم پیج کی چھتری تلے حکومت کو جو سہولیات دی گئیں اور جس طرح گلیاں سنجیاں کر کے اپنے انوکھے لاڈلے کو وسیع کھلا میدان دیا گیا اپوزیشن کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کیا ہی حیثیت رکھتی؟ اگرچہ یہ دلیل انتہائی بودی ہے اور لکھتے ہوئے مجھے خود بھی اندازہ ہے کہ کوئی بھی دلیل اپوزیشن کے نکمے پن کو جسٹیفائی نہیں کر سکتی کہ ایکسٹینشن سے لے کر سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے پاس ہونے تک اپوزیشن نے ایوانِ بالا و ایوانِ زیریں میں جس تابعداری کا مظاہرہ کیا ہے اس کے بعد بس یہی کہہ سکتا ہے کہ اپوزیشن کا حال بھی۔
نظر اک نظر ادھر بھی
منتظر دید ہے نظر ادھر بھی
سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ شہبازشریف صاحب نے تو ایک دفعہ کہا بھی تھا کہ جتنی سپورٹ عمران خان کو دی گئی اگر ہمیں دی جاتی تو ملک کی تقدیر بدل دیتے۔ بلکہ میں تو کہتی ہوں کہ اگر سپورٹ بھی نہ کرتے بلکہ صرف غیرجانبدار ہی ہو جاتے تو ملک کی تقدیر بدل جاتی لیکن وہ کیا ہے نا کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے کافر لگی ہوئی تو پھر ملک جائے بھاڑ میں اور عوام جائے چولہے میں ہمارے جزیرے، کاروبار اور پراپرٹیز سلامت رہیں۔ خیر بات شروع ہوئی تھی تعریفی سرٹیفکیٹ دینے سے تو فرداً فرداً دیکھ لیتے ہیں کہ کس وزارت نے کیا کارنامہ سرانجام دیا؟
بہترین کارکردگی میں مراد سعید کی وزارت مواصلات پہلے نمبر پر رہی۔ اب کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جس ملک میں کارکردگی کے نام پر پہلے نمبر پر آنے والا وزیر مراد سعید ہو وہاں کیا ہی کارکردگی ہو گی؟ اور اگر اپنی بات کروں تو مراد سعید کی واحد کوالٹی ہمیں تو بس پورا منہ کھول کر ہیجانی انداز میں چیخنا چلانا ہی نظر آتی ہے۔ مواصلات کے شعبے میں اس دور میں کیا ہی ترقی ہوئی سوائے اس کے کہ ٹول ٹیکس میں حکومت نے گراں قدر اضافہ کر دیا۔
دوسرے نمبر پر اسد عمر کی وزارت منصوبہ بندی تھی اور یقین کریں ان ساڑھے تین سالوں میں منصوبے بند ہی ہوئے شروع تو کوئی نہیں ہوا۔ اسد عمر کو عمران خان اور پی ٹی آئی سپورٹرز کوئی ارسطو ٹائپ چیز سمجھتے ہیں البتہ ہمیں تو ان کی قابلیت کا ادراک اسی دن ہو گیا تھا جب انہوں نے بتایا تھا کہ معیشت کی بہتری کے لئے وہ موسیقی سے موٹیویشن لیتے ہیں اور پھر بہت بےآبرو کر کے وزارتِ خزانہ سے نکالے گئے تھے۔
ثانیہ نشتر نے ایسا کیا کیا ہے جو ان کی وزارت سماجی تحفظ و تخفیفِ غربت تیسرے نمبر پر رہی؟ ایک سروے کے مطابق محدود آمدنی والے افراد کے لیے مہنگائی کی شرح 21 فیصد ہے اور محترمہ سوائے منصوبوں کے نام بدلنے کے اور کسی کام میں مہارت نہیں رکھتیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام احساس پروگرام رکھ دیا۔ ہیلتھ کارڈ کو احساس ہیلتھ کارڈ کر دیا اور سیلانی لنگر خانے کو احساس لنگر کا نام دے دیا۔ اللہ، اللہ، خیر صلہ۔
شفقت محمود کی وزارت تعلیم چوتھے نمبر پر رہی ہے جبکہ کورونا کے دوران سکول کھلنے اور بند ہونے کے فیصلوں کے علاوہ کیا ہی ایسا کارنامہ ہے جو اس وزارت نے سرانجام دیا؟ سیم سلیبس کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا گیا بلکہ غالباً پانچویں جماعت تک لاگو کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اس میں بہت سے سقم ابھی باقی ہیں۔ خاص طور پر یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کے لیے جس تربیت اور ٹریننگ کی ضرورت تھی اور سکولوں میں جو سہولیات دی جانی چاہیے تھیں اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق بلوچستان کے مسنگ پرسنز کے لواحقین کے احتجاج، ہزارہ برادری کی مظلوم ماؤں بہنوں بیٹیوں کی آہ و پکار، ملک بھر میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم، مذہبی عدم رواداری اور چائلڈ ابییوزیز میں اضافے کے باوجود پانچویں نمبر پر براجمان ہے تو ہمیں بھی شیریں مزاری کی طرح آفس چئیر پر آنکھیں بند کر کے سو ہی جانا چاہیے۔
خسرو بختیار کی وزارت صنعت و پیداوار چھٹے نمبر پر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی گاڑیوں کی خرید و فروخت اور تعمیری شعبے میں دی گئی سہولیات نے ریونیو میں اضافہ کیا ہے لیکن یہ اضافہ مجموعی صنعت و پیداوار کے شعبوں کا بیس فیصد بھی نہیں اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کی جی ڈی پی ابھی بھی 2.4 سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف ساتویں نمبر پر شاید نئی قومی سلامتی پالیسی کی بنا پر رہے لیکن یاد رہے کہ اس کے قابلِ عمل ہونے پر ابھی بہت سے سوالات کے جوابات دینا باقی ہیں۔
وزیر تجارت عبدالرزاق داؤد کی وزارت تجارت آٹھویں نمبر پر آئی اور یقینی طور پر عالمی رینکنگ میں بھی پاکستان کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوئی ہے لیکن اس کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ایک وجہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے اور دوسرا ن لیگ کے دور میں شروع کیے گئے روڈ ڈویلپمنٹ کے منصوبے ہیں جن کی وجہ سے ترسیل میں تیزی کا رحجان رہا۔ بجا طور پر اس بہتری کا فائدہ بڑے کاروباری گروپس کو تو ہو رہا ہے لیکن درمیانے اور چھوٹے درجے کے کاروباری ادارے ابھی بھی کاروبار کے لیے مشکلات کا شکار ہیں۔
گزشتہ سال کے دوران پاکستان میں بتدریج داخلی بدامنی کے مسائل بڑھتے رہے اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور جرائم کے واقعات بھی بڑھے لیکن شاید گیٹ نمبر چار سے بہترین تعلقات کے دعویدار شیخ رشید کی وزارت داخلہ کو کوئی پوزیشن دینا بھی کوئی مجبوری رہی ہو اس لیے انہوں نے نویں پوزیشن میں اپنی جگہ بنائی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ گندم، کپاس اور چینی بیک وقت درآمد کی گئی اور گزشتہ سال کسان کھاد کے حصول کے لیے پریشان حال لائنوں میں لگے رہے۔ زرعی ملک میں گندم کی پیداوار ضرورت سے کم رہی شاید اس وجہ سے فخر امام کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کی وزارت کو دسواں اور آخری نمبر ملا لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ دفاع، خارجہ، خزانہ اور قانون و انصاف کی اہم وزارتیں کوئی بھی پوزیشن حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جانا حق بجانب نہ ہو گا کہ اس وقت پاکستان دفاعی، معاشی اور سفارتی محاذ پر شدید ترین ناکامیوں کا شکار ہے؟
بہرحال کسی ملک کی بہتر گورنس اور حکومتی کارکردگی کی صورتحال کا اندازہ وزراء کو ملنے والے کارکردگی سرٹیفکیٹس سے نہیں ہوتا بلکہ عوام کے حالات، مسائل اور مشکلات میں ہونے والے اضافے یا کمی سے یہ انڈکس بنائے جاتے ہیں اور عالمی رینکنگ کے یہ انڈکس بتاتے ہیں کہ پاکستان اس وقت مہنگائی میں چوتھا بڑا ملک ہے، کرپشن رینکنگ بڑھ کر 41 نمبر پر آ گئی ہے، ورلڈ جسٹس اور رول اینڈ لاء میں ہمارا ملک 130ویں نمبر پر سٹینڈ کرتا ہے۔ جبکہ اظہارِ رائے کی قدغن اور ہائبرڈ نظام کی وجہ سے بدترین جمہوریتوں میں ہمارا نمبر 104 ہے۔ روزگار کے حصول کے محدود ذرائع نے ملک میں بدامنی کو فروغ دیا ہے اور مڈل کلاس کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
ان حالات میں وزراء کو سرٹیفکیٹ بانٹنا پنجابی محاورے کے مصداق آپے میں رجی پُجی آپے میرے بچے جین ہی کہلائے گا یا پھر یہ ایک دل کو خوش کرنے والی سرگرمی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.