ماضی میں پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو حکومتیں کرپٹ ہوتی تھیں اور اضافی ٹیکس کے پیسے کرپٹ پی ایم کے اکاؤنٹ میں جاتے تھے لیکن اب کیونکہ “میلا بےبی” اقتدار میں ہے تو ایسا نہیں ہے بلکہ عوام کو سمجھنا چاہیے کہ “میلا بےبی” خوشی سے یہ اضافہ نہیں کر رہا بلکہ انتہائی مجبوری میں عوام کی غربت کا احساس کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا جاتا ہے. مزید یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اضافے کے باوجود پاکستان اس وقت سستا ترین ملک ہے اور آج بھی پاکستان میں پیٹرول کی قیمت دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
۔ “میلا بےبی” کیونکہ میلا ہے اس لیے جب 68 روپے پیٹرول قیمت پر وہ حکمرانوں کے لتے لیتا تھا اور انہیں کرپٹ کہتا تھا تو وہ سچا اور مخلص تھا اور حکمران کرپٹ، جب وہ 100روپے کے ڈالر پر بتاتا تھا کہ جب حکمران کرپٹ ہوتا ہے تو روپے کی قدر گرتی ہے تو وہ عوام کے درد سے لبریز ہوتا تھا اور آج بھی وہی سچا ہے کیونکہ اسے تو ٹی وی دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے. جب وہ 18 روپے یونٹ بجلی پر بجلی کے بل جلانے کی دہائیاں دیتا تھا تو وہی حق پر تھا اور آج جب بجلی کا یونٹ 25 روپے سے زیادہ کا ہے تو اس کے درد کو سمجھنا چاہیے کہ اسے عوام کا بہت احساس ہے اور وہ غریب اوہ سوری غربت کم کرنے کے مشن پر ہے۔
۔ “میلا بےبی” کبھی عوام کا بُرا سوچ ہی نہیں سکتا کیونکہ 37 کا آٹا، 180 کا تیل/گھی، 57 کی چینی اور 14سو روپے میں یوریا کھاد عوام کی جیب پر اتنا بوجھ تھا کہ اس نے آتے ہی فیصلہ کر لیا کہ عوام کی جیب کے اس بوجھ کو ہلکا کرنا ہے اور آج 90 کا آٹا، 420کا تیل/گھی، 110 کی چینی اور یوریا کھاد 24سو روپے بوری کر دی. اب عوام خود ہی بتائے کہ اب ان کی جیب زیادہ ہلکی ہے یا پہلے ہلکی تھی؟
۔ “میلا بےبی” اگر آپ کو بتاتا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے سے خود کشی کر لینا بہتر ہے تو کیا غلط کہتا تھا؟ کیا آج منی بجٹ کے بعد آنے والے مہنگائی کے طوفان میں جب اشیائے ضروریہ خریدنا ہی ناممکن ہو رہا ہے کجا کہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنا تو کیا آپ کا دل نہیں کرتا کہ خودکشی ہی کر لیں؟
آپ کو بس یہ سمجھنا ہو گا کہ کیونکہ “میلے بےبی” کے ساتھ سیم پیج کا لاحقہ لٹک رہا ہے اس لیے اُس کا لگایا ہر الزام سچ اور اُس کا اٹھایا ہر قدم درست ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ جب معیشت 5.8 جی ڈی پی تھی اور سٹاک مارکیٹ 53 ہزار پر تھی تو مجھے معیشت پر بڑی اچھی اچھی تجاویز آتی تھیں اور میں سمجھتا تھا کہ مجھ سے اچھا ماہرِ معیشت تو کوئی ہے ہی نہیں اور اب سمجھ نہیں آتی کہ معیشت پر کیا بولوں؟ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ سہانے خواب بھرے پیٹ کے ساتھ ہی آتے ہیں لیکن اگر “میلا بےبی” کہہ رہا ہے کہ معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے تو پھر عوام کو افراطِ زر میں 14فیصد سے زیادہ اضافے کو نظر انداز کرنا ہو گا یا ہنس کر برداشت کرنا ہو گا۔
بہرحال میرا تو آپ کو یہی مشورہ ہے کہ اگر آپ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں، میڈیا پر لگی قدغنیں آپ کا دل دکھاتی ہیں، سیکورٹی کی خراب صورتحال آپ کے اندیشوں میں اضافہ کرتی ہے، بےروزگاری نے جان عذاب کر رکھی ہے، صحت کارڈ مفت علاج میں مددگار نہیں، پاکستان کی عالمی تنہائی اور سفارتی ناکامیاں آپ کو کسی قسم کی شرمندگی سے دوچار کرتی ہیں، سوشل میڈیا کارکنوں پر مقدمات کی اطلاعات سے دل برداشتہ ہیں اور بھارت کا کشمیر ہضم کر جانا آپ سے ہضم نہیں ہوتا تو صبح سویرے میری طرح صدیق جان کا ولاگ سنا کریں اور ایک مطمئن خوش باش دن کا آغاز کیا کریں۔
آپ کا محبِ وطن خیر اندیش: میرا خیال ہے کہ محبِ وطن خیر اندیش کہنے سے ہی آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کون ہوں؟ مزید تعارف کی ضرورت نہیں۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.