ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آ گیا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بالآخر اپوزیشن نے اپنی پٹاری سے عدم اعتماد کا جن باہر نکال ہی لیا۔ عدم اعتماد آنے کے بعد جو حالت وزیراعظم عمران خان کی ہے وہ بیان کرنے کے لیے تو میرے پاس الفاظ نہیں ہیں البتہ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کے ممکنات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اس وقت قومی اسمبلی کے ممبران کی کُل تعداد 342 ہے اور سادہ اکثریت کے لیے اپوزیشن کو 172 کی عددی برتری ثابت کرنی ہو گی. اب اپوزیشن یہ کیسے کرے گی؟ نظر بظاہر تو اپوزیشن کافی پر اعتماد ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس میں اپنی عددی برتری ثابت کر دیں گے۔ ان کے اعتماد کے پیچھے پی ٹی آئی کے ناراض گروپس اور پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کی خاموش حمایت کے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی شامل ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے۔ اب یہ یقین پتہ نہیں انہیں کیسے آیا اور کس نے دلوایا؟ لیکن میں یہاں پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی تاریخ پر ہی بات کروں گی جو بتاتی ہے کہ وزراء اعظم کے خلاف یہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ ماضی میں بینظیر بھٹو مرحومہ اور شوکت عزیز کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تھیں۔ حال ہی میں چئیرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کا حشر بھی کچھ مختلف نہیں رہا۔ البتہ ضیاء دور کے سپیکر فخر امام کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد کامیاب رہی تھی۔
اسی طرح بلوچستان کے ثناء اللہ زاہری کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی. بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ایک زرداری سب پر بھاری کا ماسٹر مائنڈ تھا اور کہتے ہیں کہ موجودہ تحریک عدم اعتماد کے ماسٹر مائنڈ بھی سب پر بھاری زرداری ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اپنی عدم اعتماد کے بارے میں کافی پرامید ہے۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ سپیکر قومی اسمبلی اجلاس کس دن بلاتے ہیں؟ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت اور قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کے رول نمبر 37 کی رو سے عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ تین دن سے پہلے اور سات دن کے بعد نہیں ہو سکتی۔
یعنی حکومت کے پاس اپنے ناراض اراکین اور اتحادیوں کو منانے کے لیے سات دن کی مہلت ہے اور اپوزیشن کے پاس بھی ان اراکین کو انگیج رکھنے کے لیے سات ہی دن ہیں۔
بہرحال تحریک عدم اعتماد کا میدان سج چکا ہے اور ملک میں سیاسی ماحول انتہائی گرم ہو چکا ہے۔ جہاں حکومتی ترجمان اور سپورٹرز اسے عالمی سازش قرار دے رہے ہیں وہیں اپوزیشن بھی ملکی معاشی صورتحال، عالمی تنہائی اور سفارتی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور عوام کو درپیش مشکلات کی وجہ سے حکومت کی تبدیلی کو ناگزیر سمجھتی ہے۔
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اپنے اپنے دعوؤں اور نعروں کے ساتھ کون قومی اسمبلی کا فاتح رہتا ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالوں میں پاکستان کو جس سفارتی تنہائی، معاشی بدحالی اور گورنس کے مسائل سے دوچار کیا ہے اس کا مداوا شاید اگلے کئی سالوں میں بھی نہ ہو سکے. اور ان تمام خرابیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا جو اصل نقصان ان سالوں میں کیا گیا ہے اور جس کا ادراک کسی بھی بڑے فورم پر نہیں کیا جاتا وہ ہے معاشرے کا اخلاقی انحطاط۔ مسلسل جھوٹ، بےبنیاد الزامات اور بدزبانی کے ساتھ ساتھ تاریخ کو جس طرح مسخ کر کے بتایا جاتا رہا ہے اس نے ایک پوری نسل کو نفرت اور تعصب کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ان کی ذہنی و اخلاقی تربیت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس اخلاقی انحطاط کو دور کرنے کے لیے تربیت کرنے کی کوئی خواہش ہی کسی فورم پر دکھائی دیتی ہے۔
اندھی نفرت اور جاہلانہ عقیدت نے معاشرے کو واضح طور پر تقسیم کر دیا ہے. ایسے میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی ملک اور عوام کو کیسے فائدہ یا نقصان پہنچائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
The contributor, Naddiyya Athar, is a Master of Urdu Literature with a Bachelors in Education. She has experience teaching at schools and colleges across Pakistan. Being keenly fascinated by the ever-changing scope of politics in the country, Naddiyya is an avid bibliophile.
Reach out to her @naddiyyaathar.