spot_img

Columns

Columns

News

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...

آئی ایم ایف پروگرام میں بڑی پیش رفت، ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو طلب

پاکستان نے آئی ایم ایف کی جانب سے عائد سخت شرائط پوری کر لی ہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایگزیکٹو بورڈ 25 ستمبر کو پاکستان کے 7 ارب ڈالرز قرض کی درخواست کا جائزہ لے گا، یہ قرض معاشی استحکام اور زرمبادلہ ذخائر ذخائر میں اضافہ کے مقاصد پورے

علی امین گنڈا پور نے افغانستان سے مذاکرات کا بیان دے کر وفاق پر حملہ کردیا ہے، خواجہ آصف

کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کر سکتا، علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ ہے، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا، مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا گیا۔
Opinionپہلا فیز
spot_img

پہلا فیز

Hammad Hassan
Hammad Hassan
Hammad Hassan has been a columnist for over twenty years, and currently writes for Jang.
spot_img

سر! نمبرز گیم کی حتمی پوزیشن کیا ہے؟
آپ مجھے زیادہ باخبر نہیں لگتے کیونکہ جو سوال آپ پوچھ رھے ہیں اس کا تعلق تو پہلے “فیز ” سے تھا اور اب تو دوسرے فیز پر سوچنے کا وقت ہے۔

دوسرا فیز؟

جی ہاں۔۔۔ کیونکہ الجھاؤ اور سرکشی کے بعد نکالے گئے عوامی تائید رکھنے والے کسی وزیراعظم کو اپنے گھر لوٹتے ہوئے بہت کم دیکھا گیا۔ کیونکہ الجھاؤ اور سرکشی کے بعد نکالے گئے عوامی تائید رکھنے والے کسی وزیراعظم کو اپنے گھر لوٹتے ہوئے بہت کم دیکھا گیا۔ حد درجہ محتاط گفتگو کے باوجود بھی یہ مختصر سا جواب بہت سی گرہیں کھولنے اور نتائج تک پہنچنے کے لئے کافی تھا۔ اب میں اچھی طرح سے “دوسرے فیز ” کو بھی سمجھ گیا تھا اور عمران خان کی “اوقات” کے ساتھ ساتھ اپنی غفلت آمیز بلکہ احمقانہ سوال کو بھی۔ دوسرے فیز کا وقت چونکہ ابھی آیا بھی نہیں بلکہ اس کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ عمران خان کی عوامی تائید حوصلے صلاحیت اور تنظیمی طاقت کو دیکھتے ہوئے ان سے ہرگز بھٹو اور نواز شریف جیسی دلیر مزاحمت اور سیاست کی توقع نہیں کی جاسکتی اسی لئے سامنے کے منظر نامے یعنی فیز ون کو ھی سوچتا اور تجزیہ کرتا رہا۔

تھوڑی دیر بعد شاہراہ دستور پر ایستادہ پارلیمان اور سپریم کورٹ کی عمارتوں پر نظر پڑی تو دل ھی دل میں کہا کہ پہلے فیز کا تعلق اول الذکر عمارت یعنی پارلیمنٹ تک محدود ہے۔ اور تمام معاملات ایک خاص منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ “تمام معاملات” مختلف اجزاء سے بتدریج یوں ترتیب پا رہے ہیں کہ چند ہفتے پہلے وہ کچھ جو نا ممکنات میں سے تھے اب عملی صورت میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ مثلا اسی پارلیمان (سینیٹ ) میں چونسٹھ نشستوں والی اپوزیشن پینتیس سیٹوں والی حکومت سے چیئرمین سینٹ سے سٹیٹ بینک بل تک مسلسل ھار رھی تھی لیکن آج وھی اقلیت میں ہونے کے باوجود جیتتی ہوئی حکومتی جماعت یعنی پی ٹی آئی صرف پنجاب کی حد تک بھی چار واضح دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ پھر اسے سنبھالنے کوئی کیوں نہیں آتاََ؟ فرض کریں کہ آج حکومت سینیٹ میں کوئی بل پیش کرے تو کیا نتائج پہلے جیسے ہوں گے؟

آگر جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ نہ ھی عمران خان حکومت چلا رہا تھا اور نہ ھی اپنی پارٹی پر انہیں گرفت حاصل ہے۔

سو پہلے فیز کے بطن سے پھوٹتا ہوا یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگلے منظر نامے یعنی حکومت سے ھاتھ دھونے کے بعد عمران خان کس سیاسی حیثیت اور مرتبے کے حامل ہوں گے۔ اور کیا پی ٹی آئی کی پارلیمانی اور تنظیمی پوزیشن اتنی توانا ہوگی کہ عمران خان اپنا سیاسی قد کاٹھ برقرار رکھ پائیں گے؟ گویا سرپرستی سے محرومی کے بعد پہلا سوال عمران خان اور ان کی جماعت کے سیاسی بقاء کے حوالے سے اٹھا ہے۔

بھر حال پہلے فیز کے “فیوض و برکات” میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فی الحال پارلیمنٹ میں عددی اکثریت ھی اہمیت کا پیمانہ ہے تا ہم اس کا انحصار مستقبل پر ہے جس کے بارے سر دست کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تبھی تو جہانگیر ترین محمود خان اچکزئی سے زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ جبکہ پی ڈی ایم کو خیرباد کہنے والا آصف علی زرداری صبح و شام شہباز شریف اور مولانا کی بلائیں لینے لگا ہے۔

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت کی رخصتی مستقبل قریب میں کم از کم اسمبلیوں پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ لیکن پس منظر کی خبر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ نواز شریف بھر صورت ستمبر سے پہلے پہلے نئے انتخابات اور حکومت کے قیام سے پیچھے نہیں ہٹے اور یہ ان تین نکات میں سے ایک ہے جن پر سارے سلسلے کا دار و مدار ہے۔

بھر حال موجودہ منظر نامے اور رونما پوتی تبدیلیوں کی طرف بڑھتے ہیں۔

پہلے فیز میں اپوزیشن کو لیونگ پلے فیلڈ فراہم کر دیا گیا جس کی بنیاد پر “بغیر کسی مدد ” کے اپوزیشن نے نہ صرف جارحانہ رویہ اختیار کیا بلکہ پی ٹی آئی کے اندر توڑ پھوڑ اور افراتفری کو اپنی طاقت بھی بنا بیٹھے۔ رہی سہی کسر عمران خان کی سراسیمگی اور گالم گلوچ نے پوری کردی۔ یہی وجہ ہے کہ نمبرز گیم کا بہاو اب بہت حد تک یکطرفہ اور واضح ہو چکا۔ جبکہ ایم کیو ایم باپ اور سندھ ڈیموکریٹک الائنس جیسی پارٹیاں بھی حکومت سے فاصلے کو اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔

پہلے فیز میں میڈیا کو محدود آزادی دینے کے منصوبے پر بھی عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ جس کی بنیاد پر حامد میر سے پابندی اٹھا لی گئی لیکن اس اقدام کا ردعمل عمران خان کی اس سراسیمگی سے عیاں ہے جو دلیل اور وژن سے محروم یوٹیوبرز کے ساتھ میٹنگ اور جلسوں میں استعمال کی گئی زبان کی صورت میں سامنے آئی۔ اگر چہ یہ میڈیائی آزادی ابھی صرف “آزمودہ ” صحافیوں ھی کو میسر ہے جبکہ “خطرناک” صحافیوں پر پابندی تاحال برقرار ہے۔ لیکن حکومت کی ناتوانی ملاحظہ ہو کہ اس “کمزور اور مصلحت پسند” صحافت کے سامنے بھی ابھی سے گھٹنے ٹیکنے لگی۔

پہلے فیز میں فون کالز کی بندش وہ فیصلہ تھا جس نے پی ٹی آئی کے اندر قدم قدم پر نہ صرف “نور عالم خان” کھڑے کر دیئے بلکہ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے بارسوخ لوگوں کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا موقع بھی فراہم کر دیاْ۔ جس کی وجہ سے حکومتی جماعت یعنی پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ اور افراتفری کھل کر سامنے آئے اور یہی وہ موقع تھا جب عمران خان کی حکومت اور پارٹی بقاء کے مسئلے سے دوچار ہوئے جس میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ان تمام حقائق اور نئے منظر نامے کی تشکیل کے باوجود کسی ادارے کے خلاف ایسی کوئی شہادت دستیاب نہیں جسے عمران حکومت کے خلاف سازش کا نام دیا جائے۔ لیکن کم از کم یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ تمام قومی ادارے کسی بھی غیر آئینی اقدام سے نہ صرف خود کو بہت فاصلے پر لے گئے ہیں بلکہ سیاسی میدان سیاسی کھلاڑیوں پر چھوڑ بھی چکے ہیں۔ (گویا عارضی طور پر ھی سہی لیکن فی الحال ہم قدرے جمہوری ملک ضرور ہیں۔))
یہی وجہ ہے کہ آمرانہ قوتوں کی سرپرستی میں ہمیشہ سیاست کرنے والے عمران خان اب خالص سیاسی میدان میں نواز شریف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے مسلسل پٹتے نظر آرہے ہیں کیونکہ یہ جہاندیدہ لوگ ایک عمر سیاسی رزم گاہوں میں گزار چکے ہیں قید و بند کاٹ چکے ہیں اور آمریتوں کے مقابل بھی آ چکے ہیں جبکہ عمران خان نے تو صرف اسلام آباد میں کنٹینر اور اقتدار ھی دیکھیں ہیں اور وہ بھی دوسروں کی مدد سے!۔۔۔ تاہم اگر مشکل وقت (خدانخواستہ ) عمران خان کی زندگی میں آیا تو اب کے بار گالم گلوچ کی بجائے تدبر کو اپناتے ہوئے مشکل وقت کو اپنی لیڈر شپ اور مقبولیت کا ذریعہ بھی بنا سکتا ہے۔
لیکن حوصلہ اور تدبر ھی شرط ہے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: