فی الوقت پوری دنیا کی نظریں یوکرین پر ہیں جہاں روس نے کچھ علاقوں پر غاصبانہ طور پر قابض ہونے کیلئے حملہ کیا ہے۔ چند ایک ممالک کے علاوہ باقی تمام دنیا یوکرین کی حمایت میں متحد نظر آ رہی ہے اور یہی مؤقف رکھتی ہے کہ روس کا جنگی جنون عالمی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ کہ یوکرین اس معاملہ میں مظلوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف ممالک روس کے خلاف تجارتی، کاروباری اور سفری پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے روس کی قومی فٹبال ٹیم پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے، یورپ کی فٹبال تنظیم یوئیفا نے بھی روس سے تعلق رکھنے والے تمام فٹبال کلبز کو کسی بھی یورپین ایونٹ یا فٹبال کے مقابلوں میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو خط بھیجا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان بھی یوکرین پر روس کے حملہ کی مذمت کرے۔ یہ ایک جائز مطالبہ تھا جس کو پاکستان میں اقتدار و اختیارات پر قابض قوتوں کے کٹھ پتلی وزیراعظم نے ٹھکرا دیا اور ایک جلسہ میں یورپی یونین کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کیے جو ہر گز مناسب یا قابلِ قبول نہ تھے۔ عمران خان نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یورپی یونین نے یہی خط بھارت کو کیوں نہیں لکھا؟ یہ سوال بھی صرف جھوٹی انا کی تسکین کے سوا اور کچھ نہ تھا کیونکہ اگر اس خطہ کی تاریخ، ہمارے مذہبی نظریات اور کشمیر کے متعلق دونوں ممالک کے مؤقف کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ یورپی یونین کا صرف پاکستان کو خط لکھنا کوئی حیران کن بات نہ تھی۔
پاکستان دنیا کے سامنے 74 برس سے کشمیر کے متعلق بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے آواز بلند کر رہا ہے اور پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے جو کہ مظلوم کا ساتھ دینے اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے 74 برس سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور وہ سرکاری طور پر ایک لبرل ریاست ہے۔ پاکستان دنیا میں کشمیری عوام کیلئے خود ارادیت کی بات کرتا ہے جبکہ بھارت دنیا کے سامنے یہ مؤقف رکھتا ہے کہ کشمیر اس کا حصہ ہے اور وہی کشمیر پر اپنا حق رکھتا ہے اور یہ کہ کشمیر میں کسی بھی طرح کے ریفرینڈم کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
یورپی یونین نے ہم سے اگر یوکرین پر روس کے بلاجواز حملہ کی مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے تو وہ کشمیر کے معاملہ پر ہمارے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک درست مطالبہ ہے کہ ہم اگر کشمیر پر بھارتی قبضہ کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ہمیں روس کے یوکرین پر حملہ کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ روس یوکرین کے کچھ علاقوں پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اس بنیاد پر اس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ ہم اگر روس کی حمایت کرتے ہیں تو پھر اقوامِ متحدہ یا کسی بھی عالمی سطح کے پلیٹ فارم پر کس طرح کشمیر کیلئے آواز بلند کریں گے؟ کیسے کشمیری عوام کیلئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کریں گے؟
جس طرح کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کو کرنا چاہیے بالکل اسی طرح یوکرین کے ان علاقوں کے متعلق بھی یوکرین کے عوام کو فیصلہ کرنے کا حق ملنا چاہیے جن پر روس ناجائز قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح کشمیر پر بھارتی تسلط ظلم ہے، اسی طرح یوکرین پر روس کا حملہ بھی ظلم ہے۔
عقل کے اندھے لوگ عمران خان کی یورپی یونین کے خلاف زبان درازی پر عمران خان کو دبنگ لیڈر کہتے پھرتے ہیں، اب ان جہالت کے قطب میناروں کو کون سمجھائے کہ عمران خان بہادری کے کھوکھلے خول میں چھپی اپنی جہالت کی وجہ سے دنیا بھر میں کشمیر کے متعلق پاکستان کا مؤقف کمزور کر رہا ہے؟
پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے، آئین بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا۔ اسلام ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے اور مظلوم کا ساتھ دینے کا حکم دیتا ہے۔ ظالم اگر مسلمان بھی ہو تو اس کا ہاتھ روکنا چاہیے اور مظلوم اگر کافر بھی ہو تو اس کی دادرسی کرنی چاہیے۔
اسلامی اصولوں یا اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تب بھی موجودہ حالات میں روس کی حمایت غلط بلکہ جرم ہے اور اگر کشمیر کے متعلق دنیا میں پاکستان کے مؤقف کو دیکھا جائے تب بھی یوکرین کی حمایت نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے جس کا بھاری خمیازہ مستقبل میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
عمران خان وہی شخص ہے جو کل تک فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے متعلق تحریکِ لبیک کے مطالبہ کو صرف اس لئے تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا کیونکہ اس سے یورپی یونین اور امریکہ سے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ تھا اور اسی لئے یہ شخص تیزاب پاشی اور گولیوں سے نہتے شہریوں کو قتل کرواتا رہا۔
اب چونکہ یہ عالمی سطح کا سرٹیفائیڈ منگتا روس جا کر کچھ خیرات لے آیا ہے لہذا اب اسلامی اصول اور تعلیمات، ریاستی آئین، عالمی انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ کے قوانین اور کشمیر کے متعلق پاکستان کے مؤقف کو یکسر فراموش کر کے یورپی یونین کے متعلق بڑھکیں اور بونگیاں مارتا پھرتا ہے۔
یہ شخص پاکستان کیلئے سیکیورٹی تھریٹ بن چکا ہے. اس کے کرتوت پاکستان کو سفارتی سطح پر مکمل تنہائی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ملک کی بقاء کیلئے اس شخص سے نجات ناگزیر ہے۔ اللّٰه تعالیٰ پاکستان اور کشمیر کی حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
The contributor, A.M. Farooqi, is a social media activist, currently working in an MNC as a Customer Relationship Officer. His topics of interest surround civilian supremacy, freedom of expression, and rule of constitution.
Reach out to him @_Omaroglu.