spot_img

Columns

Columns

News

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...

آئی ایم ایف پروگرام میں بڑی پیش رفت، ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو طلب

پاکستان نے آئی ایم ایف کی جانب سے عائد سخت شرائط پوری کر لی ہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایگزیکٹو بورڈ 25 ستمبر کو پاکستان کے 7 ارب ڈالرز قرض کی درخواست کا جائزہ لے گا، یہ قرض معاشی استحکام اور زرمبادلہ ذخائر ذخائر میں اضافہ کے مقاصد پورے

علی امین گنڈا پور نے افغانستان سے مذاکرات کا بیان دے کر وفاق پر حملہ کردیا ہے، خواجہ آصف

کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کر سکتا، علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ ہے، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا، مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا گیا۔
Opinionفوج، پاکستان، اور دنیا
spot_img

فوج، پاکستان، اور دنیا

Ashraf Quraishi
Ashraf Quraishi
Ashraf Quraishi is The Thursday Times' correspondent in New York. He has been in the journalistic field for over fifty years.
spot_img

پاکستان بعض معاملات میں بہت عجیب وغریب ملک ہے۔ ہونا بھی چاہیئے جس طرح ہر فرد جداگانہ مزاج لے کر پیدا ہوتا ہے اسی طرح جغرافیائی اکائیاں بھی منفرد خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات کچھ صدیاں پہلے تک تو ایک مضبوط دلیل سمجھی جاسکتی تھی اب نہیں۔ اکیسویں صدی میں دنیا ایک عالمی گاؤں کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اب افراد بھی تیزی سے بڑھتی ہوئی تبدیلیوں سے مفاہمت کر چکے ہیں اور ملکوں کو بھی عالمی گاؤں کے طور طریقوں کو اختیار کرنا پڑ رہا ہے ۔ کچھ صدیاں پہلے کوئی ملک اپنے شہریوں سے چاہے مرضی جو سلوک کرتا کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی لیکن اب کوئی ملک انسانی حقوق خواتین اور بچوں کے حقوق آزادئی رائے کا خیال نہ کرے تو عالمی برادری اس پر آواز اٹھاتی ہے اور اگر ایسا ملک عالمی آواز پر کان نہ دھرے تو اسے کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان میں بھی انداز فکر میں تبدیلی آرہی ہے۔ جب نواز شریف نے ”ووٹ کوعزت دو“ کا بیانیہ لانچ کیا تو میرا خیال تھا کہ اس کے پیچھے معنی سے کہیں زیادہ گہرا مفہوم پوشیدہ ہے جو ہمارے لوگوں کے لئے قابل فہم نہیں ہوگا۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس بیانیئےکو عوام میں پذیرائی ملنے لگی اور بعض اوقات ایسے دیہات اور دور دراز علاقوں سے اس بیانیئے کا بہت سادہ ماور بامعنی مفہوم بھی بیان کیا گیا کہ مجھے حیرت ہوئی۔

میری حیرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے ہاں فوج کو ایک دیو مالائی حیثیت دی گئی ہے، شاید اس لئے کہ ہماری تاریخ میں تاریخ سے زیادہ سپہ سالاروں  کے دیو مالائی قصے بیان کئے گئے ہیں۔ ہم اپنے جرنیلوں کے شخصی طلسم میں بھی گرفتار رہے ہیں۔ میرےسکول کا زمانہ تھا جب ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کیا، میرے سمیت میرے تمام ہم جماعت ایوب خان کی شخصیت کے پر فریب سحر میں گرفتار تھے۔ایوبی پراپیگنڈہ نے باور کرا رکھا تھا کہ ایوب خان ایشیا کا ڈیگال ہے حالانکہ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ڈیگال کون تھا۔کے پی کے (سابق صوبہ سرحد) میں ٹرکوں کے پیچھے اس وقت بھی ایوب خان کی تصویر کے ساتھ ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد“ لکھا ہوتا تھا جب میں اور میری نسل کے لوگ اس طلسم سے آزاد ہو چکے تھے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے تک قربانی کے جانوروں پر ”پاک فوج کو سلام“ لکھا ہوتا تھا۔ اور ایک صبح اٹھ کر لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ درودیوار اور کھنبے ایک جرنیل کی تصویر سے سجے ہیں اور اسے حکومت سونپنے کا مطالبہ جمہوریت اور ووٹ کا منہ چڑا رہا ہے۔کاش اس وقت اس جرنیل کواحساس ہوتا کہ یہ اس کی عزت افزائی اور محبت نہیں ہے یہ فوج اور ملک سے دشمنی ہے۔

سوچ میں تبدیلی اور ووٹ کی عزت کا احساس 2018کےانتخابات کے بعد ہؤا۔ جب اس الیکشن کے لئے صف بندیاں جاری تھیں تو ووٹروں سے ان کے امیدوار چھین کر صف دشمناں میں دھکیل دیئے گئے اس سے ووٹروں کو عجیب دھچکا لگا اس پر دبے لفظوں اور کھلے لفظوں میں احتجاج بھی ووٹروں کے لئے چشم کشا تجربہ تھا۔ ووٹر جب ایک لمبی لائین میں گھنٹوں اپنا ووٹ ڈالنے کے لئے کھڑا رہا تو وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ مخالف امیدوار کےالیکشن کیمپ میں الو بول رہا ہے اسے یقین تھا کہ اس کا امیدوار جیتے گا۔ جب شام کو آر ٹی ایس بیٹھنے اور نتائج میں تاخیر کی خبر آئی تو وہ اندیشہ ہائے گونا گوں میں مبتلا ہو گیا لیکن اس کے وہم وگماں میں نہیں تھا کہ ووٹوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا جائے گا۔نتائج آئے تو اس کی خوش گمانی کافور ہوگئی اور اس کی جگہ غم و غصے نے لے لی۔ آہستہ آہستہ اس پر واردات کے پرت کھلتے گئے لیکن وہ اسے کوئی نام نہیں دے پایا۔ جب نواز شریف نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگایا تو ووٹر کو ایسا لگا کہ اس کے سینے میں چبھی ہوئی پھانس کو ایک نام مل گیا ہے۔ ”ووٹ کو عزت دو“ ووٹر کے دل کی آواز بن گیا جس کو اس کی سمجھ آگئی اس نے دوسروںکو سمجھانے کی کوشش کی تو سلسلہ درسلسلہ سوچ اور سمجھ کے دریچے کھلتے گئے۔

دنیا بھر میں فوج کے فرائض میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ساری دنیا کے فوجی جنگوں میں حصہ لیتے اور اپنے ملک کے لئے جانیں قربان کرتے ہیں۔ جب وہ فوج میں جاتے ہیں تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ فوجی اپنی مرضی سے اور بعض اوقات جبراًٍ بھی بھرتی کئے جاتے ہیں بعض اوقات زندہ سلامت اور بعض اوقات اعضاء کی قربانی دے کر واپس آتے ہیں ان کے اہل وطن ان کی پذیرائی بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہ قوم پر ہر وقت احسان نہیں دھرتے نہ واپس آنے والے نہ بدستور مصروف جنگ۔ دنیا بھر میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان فوجیوں کا کام قابل قدر ہے لیکن وہ اس کا پورا پورا معاوضہ حاصل کرتے ہیں جو ان لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے دیئے گئے ٹیکس سے ادا کیا جاتا ہے جن کی وہ حفاظت کے لئے جنگوں میں جاتے ہیں۔وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فوج میں جانے والا ہر شخص لازم نہیں کہ موت سے ہم کنار ہو اگر چند سو یا چند ہزار مارے جاتے ہیں تولا کھوں صحیح سلامت گھروں کو لوٹ بھی آتے ہیں اور ساری عمر پینشن حاصل کرتے ہیں۔جنگ میں مارے جانے والوں کے لواحقین کو بھی پینشن اور دوسری سہولتیں ملتی ہیں۔ صرف فوج میں بھرتی ہونے والے ہی موت کے خطرے سے دوچار نہیں ہوتے بعض دوسرے پیشوں میں بھی ہروقت موت سر پر منڈلاتی رہتی ہے کان کنوں کی زندگی کٹھن بھی ہوتی ہے اور موت کا خطرہ بھی ہرگھڑی ساتھ ہوتا ہے۔ میرا مقصد فوج یا فوجی کی قدر گھٹانا نہیں لیکن قوم سے یہ توقع رکھنا کہ انھیں ہروقت سر پر اٹھا کر رکھے درست نہیں ہوگا۔ اور اسی لئے اب پاک فوج کے لئے بنائے جانے والے نئے نئے ترانےمقبولیت نہیں پاتے۔

امریکا میں بھی فوج کو نگاہ قدر سے دیکھا جاتا ہے لیکن ریٹائر منٹ کے بعد تمام محکموں کی سربراہی پر نہیں بٹھا دیا جاتا۔ فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد کوئی بھی سابق فوجی اپنے نام کے ساتھ عہدہ نہیں لکھتا ہمارے ہاں کالم نگاری کرتے ہوئے بھی ساتھ کرنل (ر) لکھے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔اس وقت امریکا  کی سینٹ میں سترہ سابق فوجی ہیں کسی کے نام کے ساتھ اس کا فوجی عہدہ لکھا ہوتا ہے نہ کسی کو معلوم ہوتا ہے ۔ایوان نمائندگان میں بھی اکیانوے سابق فوجی ہیں۔ اور یہ اس مقام پر فوجی خدمات کے صلے میں نہیں پہنچے انہوں نےسیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیا ر کی سٹی اورسٹیٹ کی نمائندگی کے انتخابات میں حصہ لیا اور آج کانگرس کے رکن ہیں اس سے آگے بھی جاسکتے ہیں۔ امریکا کی پچاس ریاستوں اور پانچ غیر ریاستی علاقوں میں سے صرف سات ریاستوں کے گورنر سابق فوجی ہیں۔ امریکا میں گورنر منتخب ہوکر آتا ہے۔اور اسی امریکا میں چالیس ہزار فوجی ہوم لیس (بے گھر) ہیں۔پورے امریکا میں دس ایسی کمپنیاں ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ سابق فوجیوں کوملازمت دینےمیں ترجیح دیتے ہیں۔جبکہ ایک سابق فوجی کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کچھ کمپنیا ں فوجیوں کو ترجیح دیتی ہوں لیکن میرا ذاتی تجربی یہ ہے کہ  اگر نوکری دینے والوں کو بتا دو کہ آپ سابق فوجی ہیں تو زیادہ اس بات کا امکان ہے کہ نوکری دینے سےانکار کردیا جائے۔

امریکا میں صدر مملکت کے ساتھ سابق نہیں لکھا جاتا ۔ صدر روزویلٹ،صدر کلنٹن،صدربراک اوباما غرض سارے صدر اب بھی صدر ہیں نام کی حد تک کام کی حد تک نہیں۔آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ جنگ کے دوران جرنیل چینج نہیں کئے جاتے ، امریکی جرنیل  میک کرسٹل افغانستان میں برسر جنگ تھا جنرل میک کرسٹل  نے ایک جریدے رولنگ سٹون کو دیئے گئے انٹرویو میں صدر باراک اوباما اورقیادت کے بارے میں کچھ نازیبا باتیں کیں۔ اسے امریکا پہنچنے یا صفائی کا موقع دیئے بغیر فارغ کر کے واشنگٹن رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا۔رولنگ سٹون کے مضمون کے بارے میں صدر باراک اوباما نے کہا کہ اس سے فوج پر سول کنٹرول  کے تصور کی پامالی ہوئی۔ سول کنٹرول ہماری جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اس پر نہ فوجی جوان جذباتی ہوئے نہ کسی دوسرے جرنیل نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔

 امریکی آئین میں پہلی ترمیم کو ایک گلیدی اہمیت حاصل ہے اس ترمیم کو ”بل آف رائیٹس“ کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر امریکی کو اظہار خیال کی آزادی حاصل ہے۔ لیکن فوجی قوانین کے تحت  جب کوئی شخص کمشن حاصل کرلیتا  ہےتو اس کی یہ آزادی ختم ہوجاتی ہے وہ اظہاررائے کی کھلی آزادی سے دست بردار ہوجا تا ہے۔اور وہ صدر، نائبصدر،کانگرس (پارلیمنٹ)، وزیردفاع،وزیرافواج (سیکریٹری آف ملٹری)، وزیرمواصلات (سیکریٹری ٹرانسپورٹ)، کسی بھی ریاست (یا امریکی انتظام میں شامل علاقوں جنھیں ریاستی حیثیت حاصل نہیں) کے گورنر کے خلاف زبانی یا تحریری طور پر نامناسب الفاظ استعمال کرے تو اس کا کورٹ مارشل ہوگا۔اس کا مقصد فوج کو سیاست سے دور رکھنا بیان کیا گیا ہے۔اسی لئے فوجیوں کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی نہیں ہوتا ، ہوسکتا ہے کوئی جعلی نام سے کوئی خفیہ اکاؤنٹ بنالے لیکن پکڑے جانے پر اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ اس قانون کی بنیاد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کہ امریکا کی دریافت سے بھی پہلے برطانیہ کا قانون رہا ہے۔اس قانون کی خلاف ورزی پرفوجی افسر کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور نوکری بچ گئی تواس پر ترقی کے دروازے  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیں گے اور اس کی ریٹائر منٹ ”باعزت“ ریٹائرمنٹ نہیں ہوگی۔ یہاںپر ایک اور معنی خیزوضاحت بھی کی گئی ہے کہ ”شہری اور رعایا میں فرق ہے“۔

یاد رہے کہ ان ملکوں کی فوج کو بار بار اپنے غیر جانب دار ہونے کے اعلانات نہیں کرنے پڑتے ان کے عمل سے ان کی غیرجانبداری کا ثبوت ملتا ہے۔نہ انھیں کہنا پڑتا ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ انھیں فوج کی عزت کرانے کے لئے بھی نہ قوانین بنانے پرتے ہیں نہ ویگو ڈالوں کوزحمت دینا پڑتی ہے۔نہ فوج کو ئی شکایت ہے نہ عوام کو۔دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا،پاکستان کا بچہ بچہ ووٹ کو عزت  دوکا مطلب بہت اچھی طرح سمجھتا ہے کسی کے ذہن میں اب کوئی الجھاؤ نہیں ہے، اگر ہم نے اس بات کو نہ سمجھا تو ہم اپنا کوئی بہت بڑانقصان کربیٹھیں گے۔فوج میں بہت ذہین سمجھ داراور محب وطن لوگ موجود ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فوج کی عزت گھر کی صفائی سے بحال ہوگی ،وہ یہ بھی ضرور جانتے ہوں گے کہ اس میں تاخیر کسی کے فائدے میں نہیں ہوگی۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: