spot_img

Columns

News

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 6 پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے جبکہ کیروسین آئل کی قیمت میں11 روپے 15 پیسے کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

ذرائع کے مطابق آئین کی متعدد شقوں میں ترمیم کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججز کے پینل سے کرنا، ہائیکورٹ کے ججز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے اصلاحات، اور آئینی عدالت میں اپیل کے نئے نظام کی تجویز شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...
Opinionاوورسیز پاکستانی ووٹرز کا مسئلہ
spot_img

اوورسیز پاکستانی ووٹرز کا مسئلہ

Ashraf Quraishi
Ashraf Quraishi
Ashraf Quraishi is The Thursday Times' correspondent in New York. He has been in the journalistic field for over fifty years.
spot_img

اوورسیز پاکستانیز ایک وسیع المعانی لفظ ہے، جس کا ان تمام پاکستانیوں پر اطلاق ہوتا ہے جو پاکستان کے باہر کسی بھی وجہ سے عارضی، مستقل، یا ہمیشہ کے لئے کسی اور ملک کی شہریت لے کر بیرون ملک مقیم ہوں۔ بیرون ملک قیام پذیر ان تمام پاکستانیوں پر یکساں قانون لاگو نہیں ہوسکتا۔ ووٹ بھی ایک ایسا حق ہے قانون کے تابع ہے۔ پاکستان سے باہر مقیم ایسے پاکستانی جو محنت مزدوری کرنے کی خاطر دوسرے ملکوں میں وہ ان ملکوں میں عارضی قیام رکھتے ہیں یہ قیام مختصر ہو خواہ طویل اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کی مدت قیام خواہ کچھ بھی ہو یہ بدستور پاکستانی ہیں۔ انھیں کبھی نہ کبھی واپس پاکستان لوٹ کر آنا ہے۔ انھوں نے نہ تو پاکستانی شہریت ترک کی ہے نہ کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کی ہے۔ ان کا شمار تارکین وطن کے زمرے میں نہیں ہوگا۔مڈل ایسٹ اور بعض دوسرے ملکوں میں بیشتر پاکستانی اسی طرح قیام پذیر ہیں۔ ایسے ممالک میں غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا قانون نہیں ہے۔ شادی کے ذریعے اکثر ملک غیر ملکیوں کو اپنی شہریت دے دیتے ہیں۔ بہت سے افغان مہاجرین نے پاکستانی خواتین سے شادیاں کر لیں اور وہ پاکستان کے شہری بن کر پاکستان میں رہنے لگ گئے۔لیکن مڈل ایسٹ کی اکثر ریاستوں میں شادی کرلینے پر بھی کسی کو شہریت نہیں دی جاتی،اگرچہ اب اس سلسلے میں کچھ نئے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ تاہم ان ممالک میں روزی روٹی کمانے والے خوا کتنی مدت ملک سے غیر حاضر رہیں یہ پاکستانی ہی رہتے ہیں۔ یہ غیر حاضر ووٹر یا بیرون ملک قیام پذیر پاکستانی ہیں، طویل یا مختصر مدت کے لئے پاکستان سے ان کی غیر حاضری انھیں ووٹ کے حق سے محروم نہیں کرتی۔ ان پاکستانیوں کو ووٹ دالنے کے لئے کیا طریقِ کار ہو یہ ایک الگ سوال ہے اور اس مقصد کے لئے ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جس کے تحت یہ غیرحاضر پاکستانی بآسانی اپنا ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کر سکیں۔ حکومت اس کے لئے کام کر رہی ہے۔

یورپی اور امریکی ممالک میں صورتِ حال مختلف ہے۔ ان ملکوں میں کسی کمپنی کی سپانسر شپ، شادی، ایک خاص حد تک بڑی سرمایہ کاری یا مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے شہریت دے دی جاتی ہے اور وہ اپنے نئے ملک کا شہری بن جاتا ہے،اس کے حقوق شہریت دینے والے پیدائشی شہریوں کے برابر ہوتے ہیں اور اس سے کوئی امتاز روا نہیں رکھا جاتا۔ شہریت دینے کے قوانین ہر ملک کے اپنے اپنے ہیں لیکن یہ بات قریباً تمام ممالک میں یکساں ہے کہ نئی شہریت حاصل کرتے وقت امیدوار شہریت کو اپنے پہلے ملک کی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ دہری شہریت قانونی طور پر کوئی چیز نہیں۔ صرف رہنے سہنے کی حد تک کسی ملک کو شاید دوسرے ملک کی شہریت پر کوئی اعتراض نہ ہو لیکن کسی عوامی عہدے کے لئے اسے پرانی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ اس کی ایک مثال سابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ہے وہ نیویارک کے رہنے والے امریکی تھے لیکن اسرائیلی سیاست میں حصہ لینے کی خاطر امریکی شہریت تیاگنا پڑی۔ شوارز نیگر آسٹریا کا شہری تھا امریکی شہریت حاصل کرلینے کے باوجود اس کی آسٹریائی شہرہت موجود تھی وہ ہالی وڈ کی فلوں میں کام کرتا رہالیکن سیاست میں آکر گورنر کیلی فورنیا بننے کے لئےاسے پہلے اپنی آسٹریائی شہریت ترک کرنا پڑی۔

امریکا میں شہریت حاصل کرنے کے لئے ایک حلف لیا جا تا ہے جس کے پہلے پیرے میں اسے یہ عہد کرنا ہوتا ہےکہ؛ ”میں اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ میں آج ان سابق تمام وفا داریوں، اطاعتوںاور شہریت سے اپنا تعلق ختم کررہا ہوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی غیر ملکی ریاست، شہزادے، سرکار یا کسی بھی طرح کے اقتدارِ اعلٰی سے ہو۔ اور میں حلفیہ اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں امریکی آئین اور قانون کا تمام اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے دفاع کروں گا۔ امریکی آئین اور قانون سے میری وفاداری غیر مشروط ہوگی۔ قانون کے مطابق ضرورت پڑنے پر میں امریکا کے حق میں ہتھیاربھی اٹھاؤں گا۔ ضرورت پڑنے پر فوج میں غیر جنگی خدمات کے لئے اپنی خدمات پیش کر دوں گا“۔ اس کے علاوہ اگر اس کے پاس امریکی شہریت کے حلف سے پہلے کسی ملک سے کوئی خطابات وغیرہ حاصل رہے ہوں تو ان سے دست بردار ہونا ہوگا۔

اس حلف کی وجہ سے امریکی شہریت حاصل کرنے والااپنی سابق شہریت سے اعلانِ لا تعلقی کر دیتا ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کی سابق شہریت ختم ہوجاتی ہے۔ امریکہ شہریت حاصل کرکے پاکستانی شہریت سے دست برداری کے بعد پاکستانی ریاست اسےپاکستانی اوریجن ہونے کی بنا پر چند مراعات دیتی رہتی ہے یعنی پاکستان میں داخلے کے لئے اس کا پاکستانی اوریجن کارڈ اسے ویزا لینے کی زحمت سے بچا لیتا ہے اور وہ پاکستان میں جائیداد وغیرہ خرید سکتا ہے۔ بہر حال یہ پاکستانی قانون کے تحت دی گئی مراعات ہیں جنھیں جس قانون کے ذریعے دیا گیا اس قانون کو ختم کر کے انھیں ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی دوسرے ملک کے شہری کو پاکستان میں قانون سازی جیسے امور میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے اور کسی دوسرے ملک کے شہری کو قانون سازی اور حکومت کی تشکیل کے لئے ووٹ کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟گرین کارڈرکھنے والے کامعاملہ دوسرا ہے۔ گرین کارڈ شہریت کا عہد وفا باندھنے سے نہیں ملتا۔ گرین کارڈ پرماننٹ ریذیڈینس کارڈ ہے۔ یعنی مستقل قیام کا اجازت نامہ، کسی جرم کے ارتکاب پر ختم بھی ہوسکتا ہے امریکا سے لمبی مدت تک غیر حاضر رہنے پربھی کینسل ہوسکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گرین کارڈ رکھنے والا امریکا میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔

پاکستان سے امریکا آکر کام کاج مزدوری کرنے والے گرین کارڈ کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں اس وقت بھی گرین کارڈ رکھنے والےپاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے کہ شہریت حاصل کرنے کی فیس نہ ہونے، سال کے سال ٹیکس ادا نہ کر سکنے اور انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے شہریت کے حصول سے محروم ہیں۔ ایسے غریب لوگ امریکی شہریت حاصل کر کے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں،انھیں صحت کی بہتر سہولتیں ملنے لگتی ہیں ان سے کوئی جرم سر زد ہوجائے تو انھیں امریکا بدر نہیں کیا جاتا، ان کی جو اولاد یہاں پیدا ہوگی وہ پیدائش سے امریکی شہری ہوگی،کالجوں میں ان کے بچوں سے غیر ملکی بچوں والی فیس نہیں لی جائے گی، اس طبقے کی خواہشات بس اتنی ہی ہیں امریکی شہریت ان کا انتہائی عروج ہے انھیں پاکستان میں سیاست کرنے کا کوئی شوق نہیں نہ یہ طبقہ پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن وکیل پروفیسر اور متمول پاکستانیوں کو شہریت مل جاتی ہے تو ان کو پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کی خواہش چٹکیاں لنیے لگتی ہے۔ وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بھاری فنڈ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کے عوض انھیں پاکستان میں وزارتیں ملیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انھیں پاکستان میں ووٹ کا حق دیا جائے۔ اس مطالبے کاکوئی جواز نہیں، یہ لوگ اپنی پاکستانی شہریت ترک کر چکے ہیں قانونی طور پر یہ غیر ملکی ہیں انھیں پاکستان کے حساس معاملات میں شامل نہیں کیا جاسکتا، اگر یہ محض سابق پاکستانی ہونے کی وجہ سے ووٹ دے کر اور ووٹ لے کر کسی اونچے مقام پر پہنچ جائیںتا عین ممکن ہے کہ ان کا نیا ملک شہریت کے حلف کےتقاضوں کے تحت انھیں پاکستانی مفادات کے خلاف استعمال کرے۔ مڈل ایسٹ میں مزدوری کرنے والے عارضی غیر حاضر اور اور گرین کارڈ رکھنے (بشرطیکہ وہ اپنا گرین کارڈ سرنڈر کردیں)والوں کو پاکستان میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاسکتا ہے۔ ان کو یہ حق کیسے دیا جائے اور وہ اس حق کو کیسے استعمال کریں یہ ایک الگ معاملہ ہے۔

امریکا میں بیرون ملک مقیم امریکیوں کو(جن کی ایک غالب تعداد امریکی فوجیوں کی ہوتی ہے) غیر حاضر امریکی کہا جا تا ہے اور غیر حاضر ووٹر کے طور پر ان کا ووٹ کاسٹ ہوتا ہے۔ امریکی آئین اورقوانین کے تحت غیر ممالک میں مقیم امریکیوں کا ووٹ اسی حلقے میں رجسٹر ہوگا جہاں وہ رہتے رہے ہوں۔ یہ امریکی، ڈاک کے ذریعے صدر، نائب صدر اور کانگریس کے دونوں ایوانوں کے لئے ووٹ ڈال سکتے ہیں، ریاستی سینٹ اور شہری حکومتوں کے لئے الگ الگ ریاستوں کے الگ الگ قوانین ہیں۔ ابھی تک اس ووٹنگ کے لئے آن لائن سہولت میسرنہیں ہے۔ امریکا میں قبل ازوقت یا پیشگی ووٹ ڈالنے کا قانون ہےجس کے تحت امریکا میں موجودمقامی امریکی اور دوسرے شہروں میں کاروباریا ملازمت کرنے والے الیکشنز ڈےسے پہلےووٹ ڈال سکتے ہیں۔ پیشگی ووٹ کا سلسلہ ہر ریاست کےہر حلقے میں ہے البتہ یہ طے کرنا کہ عام الیکشن سے کتنے دن پہلے پیشگی ووٹنگ شروع ہوگی یہ ہر ریاست کی اپنی اپنی صوابدید ہے۔ امریکی شہری رش سے بچنے کے لئے اکثر پیشگی ووٹنگ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس مدت کے دوران موصول ہونے والے پوسٹل ووٹ بھی الیکشن والے دن شمار کر لئے جاتے ہیں۔

آسٹریلیا میں ووٹنگ لازمی ہے اور وہاں چالیس فی صد ووٹ پیشگی کاسٹ ہوجاتے ہیں۔ جرمنی میں انیس فی صد ووٹ پیشگی ووٹنگ سے کاسٹ ہوتے ہیں۔ جرمنی میں بھی پیشگی ووٹ ڈاک سے ترسیل ہوتےرہتے ہیں روس میں بیس روز پہلے پیشگی ووٹنگ شروع ہوجاتی ہے اور پولنگ سٹیشن بحری جہازوں پر بنا کر بھی ووٹ کاسٹ کرائے جاتے ہیں۔ روس میں دوسال قبل کورونا کی وجہ سے ملک بھر کے تمام پولنگ سٹیشنز پر ایڈوانس ووٹینگ کی سہولت دے دی گئی تھی۔ پاکستان میں بھی اپنے حالات کے مطابق قابلِ عمل طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن ووٹ ڈالنے کا حق صرف پاکستانی شہری کو ہونا چاہیئے۔ دوسرے ملک کی شہریت ترک کرنے والے پر پابندی ہو کہ وہ شہریت ترک کرنے کے دوسال بعدپاکستانی الیکشن میں حصہ لے سکے یا کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرسکے اگر کوئی اس پابندی سے روگردانی کرے تو اس کا انتخاب کالعدم قرار پائے۔ اور اگر وہ اس بات کو چھپاکر منتخب ہوجائے یا کوئی عہدہ حاصل کرلےتو معلوم ہونے پر اس کے خلاف ریاست کو دھوکا دینے کے جرم میں قید کے ساتھ ساتھ تمام حاصل کردہ مالی مفادات جرمانے سمیت وصول کرنے چاہئیں کیوں کہ یہ ریاست کی سلامتی سے جڑا ہؤا معاملہ ہے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
spot_img

Read more

انصاف کا نظام یا پاپولسٹ نظام؟

کیا ججز کو آئین و قانون کی بجائے پاپولزم کی بنیاد پر فیصلے کرنے چاہئیں؟ کیا کسی مجرم کو اس بنیاد پر ماورائے قانون ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ملین فالورز ہیں؟ پاپولزم کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر بھی سوالات بن کر سامنے آتے ہیں۔

مجھے کیوں نکالا؟ پارٹ ٹو

This article originally appeared in WeNews.نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کا آغاز تھا...

پاکستان کا سفر – مجیب الرحمٰن سے عمران خان تک

شیخ مجیب الرحمٰن کی وڈیو جاری کر کے عمران خان نے قوم سے آدھا سچ بولا ہے جو جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو بس یہ بات یاد رکھنی ہے کہ پہلے دشمن ہماری سرحدوں پر حملہ کرتا تھا اب ہماری نوجوان نسل سے آدھا سچ بول کر ان کی سوچ کو پامال کرتا ہے۔ مجیب الرحمٰن سے لیکر عمران خان تک کے سفر میں پاکستان کو دشمنوں کے ساتھ اپنوں نے بھی مسلسل ڈسا ہے۔

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 6 پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے جبکہ کیروسین آئل کی قیمت میں11 روپے 15 پیسے کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

ذرائع کے مطابق آئین کی متعدد شقوں میں ترمیم کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججز کے پینل سے کرنا، ہائیکورٹ کے ججز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے اصلاحات، اور آئینی عدالت میں اپیل کے نئے نظام کی تجویز شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔
error: