ستر کی دہائی میں گارڈن کالج راولپنڈی میں طلباء سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے پرویز رشید درحقیقت ایک ناقابلِ تسخیر سیاسی نظریہ کا نام ہیں۔ چی گویرا سے متاثر انقلابی نظریات رکھنے والے پرویز رشید طالبعلمی کے دور سے ہی ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
گارڈن کالج راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے طلباء ونگ کے لیڈر پرویز رشید 80 کی دہائی میں پیپلز پارٹی سے الگ ہو گئے اور پھر یہ گوہرِ نایاب ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا“ کے اعلان پر اقتدار سے ہاتھ دھونے والے وزیراعظم نواز شریف کے حصہ میں آیا۔ وفا کی علامت پرویز رشید ابتلا کے دور میں بھی نواز شریف کے ساتھ چٹان بن کر کھڑے رہے۔
جب 1997 میں محمد نواز شریف دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو پرویز رشید سینیٹر منتخب ہو کر پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین بن گئے۔ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو یہ پرویز رشید ہی تھے جنہوں نے پرویز مشرف کی بطور آرمی چیف برطرفی کی خبر اپنے ہاتھوں سے لکھ کر پاکستان ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ کروائی۔ اس خبر کے ٹیلی کاسٹ ہونے کے کچھ دیر بعد ہی فوج پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کیلئے پہنچی تو انہیں پرویز رشید کی صورت میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پرویز رشید نے طالع آزما ڈکٹیٹر کی طرف سے منتخب وزیراعظم کو پاکستان ٹیلی ویژن پر مجرم اناؤنس کرنے کا حکم ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ ان جرائم کی پاداش میں پرویز رشید کو گرفتار کر کے زندان میں قید کر دیا گیا اور پھر ان کے ساتھ جس ظالمانہ سلوک کا آغاز کیا گیا، وہ الفاظ میں ناقابلِ بیان ہے۔
اس ناحق قید کے دوران پرویز رشید پر شدید تشدد کیا گیا۔ مشکلات کا ایک سمندر عبور کر کے جب پرویز رشید کی بیٹی اپنے باپ سے ملاقات کیلئے زندان میں پہنچی تو پرویز رشید کی شلوار خون میں لتھڑی ہوئی تھی اور ان کے جسم سے مسلسل خون بہہ رہا تھا۔ اس انتہائی تکلیف دہ ملاقات میں باپ اور بیٹی ایک دوسرے سے آنکھ نہیں ملا سکے. طویل قید کے بعد جب پرویز رشید کو رہائی میسر ہوئی تو وہ جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیئے گئے اور انہیں پاکستان سے باہر طویل جسمانی و نفسیاتی علاج سے گزرنا پڑا. زندان میں قید پرویز رشید نے ان حالاتِ خون آشام کے باوجود نواز شریف کے خلاف کوئی جھوٹی گواہی دی نہ ہی نواز شریف کے خلاف کوئی ایک لفظ تک لکھوایا۔
پرویز رشید کئی برس جلاوطنی کاٹنے کے بعد وطن واپس آئے اور پھر دوبارہ ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے۔ 2013 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ محمد نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے تو پرویز رشید وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ بنے اور پھر انہیں قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے اضافی قلمدان بھی سونپ دیئے گئے۔
آمریت پسند عناصر کو پرویز رشید ابھی تک قبول نہ تھے اور پھر ڈان لیکس نامی سازش کے تحت پرویز رشید کو وزارتوں سے علیحدہ ہونے کی سزا سنا دی گئی۔ سینیٹ الیکشن 2021 میں حیران کن طور پر پرویز رشید کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیئے گئے اور اس استرداد کے خلاف پرویز رشید کی درخواست بھی لاحاصل رہی۔
پرویز رشید کے خلاف ایک سوچ یہ بھی پروان چڑھائی گئی کہ پرویز مشرف کے ڈھائے ہوئے مظالم نے پرویز رشید کو انتہا پسند بنا دیا اور ایسے خطرناک شخص کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں، پرویز رشید کو نواز شریف کی تمام جارحانہ تقاریر کا ماسٹر مائنڈ بھی قرار دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پرویز رشید انتہا پسند ہیں نہ ہی وہ نواز شریف کو جنگ پر اکساتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک روشن دماغ سیاستدان کو کال کوٹھڑی میں ناحق قید کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اس کے غیرمتزلزل جمہوری نظریات کو انتہا پسندی کا نام دے کر ناقابلِ فراموش توہین کی گئی۔
ڈان لیکس اور پھر سینیٹ الیکشن میں کاغذات نامزدگی مسترد کر کے پرویز رشید کو یہ بتا دیا گیا کہ اب ان کی ملکی سیاست میں کوئی جگہ نہیں لیکن آمریت کے مظالم برداشت کرنے والے جبلِ استقامت پرویز رشید کیلئے یہ بھی کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔ پرویز رشید تو آج بھی میدانِ عمل میں اپنے اس عشق کے ساتھ وابستہ ہیں جس کو دنیا جمہوریت کہتی ہے۔ پرویز رشید تو آج بھی اپنے اندر ایک ایسا خوابوں کا شہر آباد رکھے ہوئے ہیں جس کو مسمار کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ کسی ڈکٹیٹر کے مظالم ان کے اندر موجود آتش فشاں کو منجمد نہیں کر سکے۔ وہ تو کسی مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم ہیں اور کتنے ہی طوفان انہیں منہدم کرنے کی خواہش اپنے اندر لیے فنا ہو چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پرویز رشید کے جمہوری و انقلابی نظریات واقعی اب ناقابلِ معافی جرائم ہیں؟ کیا بدترین تشدد کے باوجود حق پر ڈٹے رہنا انتہا پسندی ہے؟ کیا جمہوری نظریات رکھنا انتہا پسندی ہے؟ کیا ظلم کے آگے گھٹنے نہ ٹیکنا انتہا پسندی ہے؟ کیا سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا انتہا پسندی ہے؟ کیا آئین شکنی کو جرم کہنا انتہا پسندی ہے؟ کیا اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے ڈکٹیٹر کے آگے جھکنے سے انکار کر دینا انتہا پسندی ہے؟ کیا سویلین بالادستی کا نعرہ لگانا انتہا پسندی ہے؟ کیا آئین و قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگانا انتہا پسندی ہے؟ کیا پرویز رشید کے جمہوری نظریات انتہا پسندی ہیں؟ کیا یہ نظریات ناقابلِ معافی ہیں؟ کیا پرویز رشید ناقابلِ معافی ہیں؟
The contributor, A.M. Farooqi, is a social media activist, currently working in an MNC as a Customer Relationship Officer. He discusses civilian supremacy, freedom of expression, and rule of constitution.
Reach out to him @_Omaroglu.