spot_img

Columns

Columns

News

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...

آئی ایم ایف پروگرام میں بڑی پیش رفت، ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 25 ستمبر کو طلب

پاکستان نے آئی ایم ایف کی جانب سے عائد سخت شرائط پوری کر لی ہیں، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا ایگزیکٹو بورڈ 25 ستمبر کو پاکستان کے 7 ارب ڈالرز قرض کی درخواست کا جائزہ لے گا، یہ قرض معاشی استحکام اور زرمبادلہ ذخائر ذخائر میں اضافہ کے مقاصد پورے

علی امین گنڈا پور نے افغانستان سے مذاکرات کا بیان دے کر وفاق پر حملہ کردیا ہے، خواجہ آصف

کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کر سکتا، علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے براہِ راست مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ ہے، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دورِ حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا، مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا گیا۔
Op-Edہم نازک دور سے گزر رہے ہیں
spot_img

ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں

Op-Ed
Op-Ed
Want to contribute to The Thursday Times? Get in touch with our submissions team! Email views@thursdaytimes.com
spot_img

جب سے ہوش سنبھالا ہے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ “پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔” پھر جب پڑھنے پڑھانے سے واسطہ پڑا تو پتہ چلا کہ ہمارے والدین نے بھی ایسے ہی دور میں ہوش سنبھالا تھا جب “پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا تھا۔” اور آج جب ہمارے بچے بڑے ہو رہے ہیں تو آج بھی یہی سننے کو ملتا ہے کہ” پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔” سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ تاریخ کے نازک دور سے ہی گزرتا رہا اور گزر رہا ہے؛ یعنی وجود میں آنے سے لے کر آج 75 سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ “نازک دور” پاکستان کی جان نہیں چھوڑ سکا تو اس کی کیا وجہ ہے؟

جبکہ ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ہمسائے پر ہی نظر ڈالیں تو وہاں سیاسی استحکام بھی نظر آتا ہے اور معاشی ترقی بھی ہے؛ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں محدود اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ خرابیاں تو یقیناً ہوں گی اور ہیں لیکن ان خرابیوں کو بنیاد بنا کر کوئی دوسرے کے دائرہ کار میں داخل نہیں ہوتا۔ آئین کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ پروفیشنل ازم نے بھارت کو دنیا کی ترقی کرتی ہوئی ریاستوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے؛ دوسری طرف پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں اپنی پیدائش کے وقت کھڑا تھا۔

آخر کیوں؟

پڑھایا تو ہمیں یہ جاتا ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک وسیع ملک ہے جس کی زمین زراعت کے لیے بھی موزوں ہے اور معدنیات کی دولت سے بھی مالامال ہے؛ پاکستان کے لوگ محنتی، جفاکش اور ہنرمند ہیں، پاکستان کے پہاڑوں، دریاؤں، میدانوں اور دریاؤں، سمندروں کا کوئی ثانی نہیں۔ پھر آخر وسائل سے مالا مال ریاست ترقی کیوں نہ کر سکی اور ہمیشہ بحرانوں کا شکار کیوں رہی؟ یہاں سیاستدانوں نے بھی اپنی حکومت سازی کے جوہر دکھائے اور جرنیلوں نے بھی باریاں لگائیں، ٹیکنوکریٹس بھی حکومت میں رہے اور مذہبی علماء نے بھی ضیاء کی مجلسِ شوریٰ میں اپنا شوق پورا کیا۔ پھر بھی نہ یہاں سیاسی استحکام آیا، نہ معاشی ترقی ہوئی، نہ معاشرتی اقدار کو فروغ ملا، نہ تعلیم و تربیت کے میدان میں کوئی نمایاں نام نظر آتا ہے اور نہ ہی شعر و ادب نے ہی ترقی کی منازل طے کیں۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہم بتدریج پستی کی طرف ہی جاتے نظر آتے ہیں اور پھر ساتھ وہی ہمیشہ کا شریکِ سفر “تاریخ کا نازک ترین دور”

جمہوریت کے فدائین آمریت کو الزام دیتے ہیں اور آمریت کے خیال میں سیاستدانوں نے ملک کو برباد کر دیا اور ساتھ دعویٰ کہ وہ سیاستدانوں کو ملک تباہ نہیں کرنے دیں گے لیکن جہاں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر آمریت کے بعد پاکستان پہلے سے زیادہ بحرانوں کا شکار ہوا وہیں جمہوریت نے بھی عوام کی زندگیوں پر کوئی بہتر اثرات مرتب نہیں کیے ویسے تو خیر جمہوریت چلنے ہی کس نے دی؟ 

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نازک دور صرف عوام کے لیے ہوتا ہے۔ ملک کی اشرافیہ کو اس نازک دور سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ نہ تو ان کے لائف سٹائل میں کوئی فرق آتا ہے، نہ ان کو ملنے والی سہولیات میں کوئی کمی بیشی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی مراعات کو کوئی زک پہنچتی ہے۔ ملٹری و سویلین اسٹیبلشمنٹ ہو یا حکومتی عہدیدار، انتظامیہ ہو یا عدلیہ ان کی مراعات کبھی نازک دور سے نہیں گزرتیں۔ نازک دور کا بوجھ بس عوام کے ناتواں کاندھوں پر ہی ڈالا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عوام اپنے من پسند حکمرانوں کی چاہ میں ہنسی خوشی یہ بوجھ اٹھا بھی لیتی ہے اور اگر ہنسی خوشی نہ بھی اٹھائے تو روتے دھوتے بھی اٹھانا تو پڑتا ہی ہے کیونکہ “اپنی طاقت” سے بےخبر “بیچاری عوام” کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

اگر عوام نے اپنے حقوق کو سمجھتے ہوئے سوال اٹھانا سیکھا ہوتا اور اپنے حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی عادت ڈالی ہوتی تو شاید یہ نازک دور کبھی ختم ہو جاتا۔

سیاستدان تو خیر پھر بھی کسی حد تک کبھی نا کبھی کسی نا کسی کٹہرے میں کھڑے نظر آ ہی جاتے ہیں۔ میں یہاں سیاسی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ریاست کے دیگر سٹیک ہولڈرز اور دس دس سال کی باریاں لگانے والوں کی بھی بات کرتے ہوئے کہوں گی کہ بطور عوام ہم نے کبھی طاقت کے اصل مراکز سے جواب دہی کی ہوتی تو شاید حالات بدل جاتے! وائیٹ کالر اشرافیہ سے کبھی ان کی آمدن کا حساب مانگا ہوتا تو شاید حالات بدل چکے ہوتے! آئین شکنوں سے آئین شکنی کی جوابدہی کی ہوتی تو شاید حالات بدل چکے ہوتے! اپنے دائرہ کار سے نکل کر دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے والوں سے حساب لیا ہوتا تو شاید حالات بدل چکے ہوتے!۔

آئین کی بجائے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے والوں کے لیے کٹہرا بنایا ہوتا تو شاید حالات بدل چکے ہوتے! کبھی سیم پیج کے دعوے اور کبھی نیوٹرل ہونے کا اعلان کرنے والوں سے پوچھا ہوتا کہ کیا انہیں اپنی آئینی ذمہ داریوں کا پتہ بھی ہے یا نہیں؟ تو شاید حالات بدل چکے ہوتے اور کبھی تو ان سیاستدانوں سے پوچھا ہوتا کہ موقع کی مناسبت سے اپنا نظریہ بدل لیتے ہو آخر اتنی منافقت کیسے کر لیتے ہو؟ تو شاید حالات بدل چکے ہوتے!۔

یاد رہے کہ قوموں کی زندگی میں نظریے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ نظریے نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنا دیا تھا اور ایک ہجوم کو قوم جس نے آزادی حاصل کر لی اور نظریے سے دوری نے اس قوم کو پھر ہجوم بنا دیا اور 75 سال سے یہ ہجوم کسی میرِ کارواں کے انتظار میں نازک دور سے گزر رہا ہے۔


The contributor, Naddiyya Athar, has an M.A. in Urdu Literature and a B.Ed. With experience teaching at schools and colleges across Pakistan, she specialises in the discussion of the country’s ever-changing political landscape.

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Col Waseem
Col Waseem
1 year ago

اگر وطنِ عزیز کو سدا کے نازک حالات سے نکالنا ہے تو اس کا واحد حل آئینی بالادستی اور جمہوریت ہے
جمہوریت جیسی بھی ہو ،ٹوٹی پھوٹی لنگڑی لولی جمہوریت۔۔۔۔۔ جمہوریت ناکام ہو جائے تو مزید جمہوریت ، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: