آج کل تحریکِ انصاف کے پیروکار اور چند عمران زدہ صحافی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر 8 ماہ میں صرف توشہ خانہ ہی ملا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ عمران خان نے کوئی جرم نہیں کیا وغیرہ وغیرہ۔
ایسا مؤقف مضحکہ خیز ہے کہ توشہ خانہ وارداتوں کا بےنقاب ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ یعنی ان لوگوں کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ عمران خان بیرون ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف کو توشہ خانہ سے چوری کرتا رہا، کوڑیوں کے مول خرید کر کروڑوں روپے میں فروخت کرتا رہا اور پھر اس چوری کو چھپاتا رہا اور الیکشن کمیشن میں اس معاملہ پر جواب دینے سے بھی انکار کرتا رہا۔
ایک شخص جس کو باقاعدہ پلان کے تحت بت بنا کر پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ بندہ ایماندار ہے اور یہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا وغیرہ وغیرہ، اس بندے کی توشہ خانہ میں تحائف دیکھ کر رال ٹپکنے لگی اور ان کو اونے پونے داموں خرید کر کروڑوں روپے میں بیچتا رہا۔ کیا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے؟
بالفرض اگر اس مؤقف کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ توشہ خانہ تحائف میں وارداتیں ڈالنا کوئی بڑی بات نہیں لہذا عمران خان ایماندار شخص ہے تو پھر یہ بھی بتایا جائے کہ نواز شریف کو کس بنیاد پر چور ڈاکو کہا جاتا ہے جبکہ آپ آج تک نواز شریف پر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت نہیں کر پائے؟
نواز شریف نے 1976 میں سیاست کا آغاز کیا، ایک بار پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہ چکے اور تین بار عوامی طاقت سے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاناما کیس (درحقیقت سازش) میں پاکستان کی تمام خفیہ ایجنسیوں اور تحقیقاتی اداروں کی مشترکہ ٹیم JIT نے کئی ماہ کی چھان بین کے بعد کیا نکالا؟ اقامہ؟ بس؟
پاکستان میں جس وسیع پیمانے پر نواز شریف کا احتساب کیا گیا، کبھی کسی اور کا نہیں ہوا۔ تحقیقات کا دائرہ 60 کی دہائی سے لے کر 2017 تک پھیلایا گیا، نواز شریف کے خاندان کی چار نسلوں کو اس ٹرائل کا حصہ بنایا گیا۔ نواز شریف کے مرحوم والد میاں محمد شریف کے تمام ریکارڈز کھنگالے گئے، نواز شریف کی والدہ، نواز شریف کے تمام بھائیوں، نواز شریف کے بھائیوں کے تمام بچوں اور پھر ان بچوں کے بھی بچوں کے تمام ریکارڈز کو تحقیقات میں شامل کیا گیا۔ اس بدترین اور اس قدر وسیع نوعیت کے احتساب میں صرف ایک اقامہ ثابت کیا گیا اور اس اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف کو غیرمنصفانہ اور ظالمانہ سزائیں سنا دی گئیں۔
اب اگر انتہائی سنگین نوعیت کے الزامات کی بنیاد پر شروع ہونے والے ملکی تاریخ کے بدترین اور وسیع ترین احتساب میں صرف ایک پائی کی کرپشن نہیں مل سکی، کسی منصوبہ میں کوئی کک بیک یا رشوت یا کمیشن یا خرد برد یا لوٹ مار ثابت نہیں ہو سکی تو پھر کیوں اب تک نواز شریف کو چور ڈاکو کہا جاتا ہے؟
اگر 8 ماہ میں عمران خان کی توشہ خانہ تحائف میں کرپشن کے انبار نظر آنے پر آپکو عمران خان ایماندار لگتا ہے تو پھر 42 سالہ سیاسی کیرئیر کے حامل شخص کے خاندان کی چار نسلوں کی پانچ دہائیوں کے احتساب میں سے صرف اقامہ ملنے پر آپ کو کیوں نواز شریف ایماندار اور دیانتدار نظر نہیں آتا؟
اگر منافقت کی عینک اتار کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ نواز شریف اس احتساب کے بعد ملکی تاریخ کا ایماندار ترین اور دیانتدار تریں حکمران ثابت ہوا ہے جبکہ عمران خان صرف 8 ماہ میں چوری ڈکیتی کے مال کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔
اللّٰه تعالیٰ ہمیں سوچنے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
The contributor, A.M. Farooqi, is an activist currently working in an MNC as a Customer Relationship Officer.
Reach out to him @_Omaroglu.