عمران خان نے تحریکِ عدم اعتماد سے بچنے کیلئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن آفر کی، وہاں بات نہ بن تو سکی موصوف نے امریکی سازش کا ڈرامہ رچا کر ریاست کے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد قرار دلوانے اور آرمی چیف کو بھی فارغ کرنے کی کوشش کی۔
نتیجتاً مبینہ طور پر آدھی رات کو وزیراعظم ہاؤس سے نکالا گیا۔ دو چار دن خاموشی اختیار کی اور پھر قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کر کے جلسوں میں غدار، امریکی غلام، میر جعفر و میر صادق، نیوٹرل، جانور، مسٹر ایکس، مسٹر وائے اور مسٹر زیڈ جیسی باتیں شروع کر دیں۔
اور اس فتنہ و فساد کیلئے مذہب کا بھی استعمال کیا، حتیٰ کہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبویﷺ تک کو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے غلط انداز میں پیش کیا۔ جب امریکی خط اور سازش والے جھوٹ بار بار ایکسپوز ہوئے تو پھر عمران خان نے خود ہی اس ملک دشمن بیانیہ سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا۔
ممنوعہ فارن فنڈنگ اور توشہ خانہ واردات سامنے آئیں اور دونوں لانگ مارچ فلاپ ہوئے تو مظلوم بننے کیلئے لانگ مارچ کے دوران فائرنگ ڈرامہ رچا کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔ کسی بھی طرح اپنی دال گلتی ہوئی نظر نہ آئی تو بغاوت کا علم بلند کرتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا۔
ڈیڑھ دو ماہ کی تگ و دو کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کی تو آگے بڑھنے کی بجائے ایک بار پھر قومی اسمبلی میں واپس آنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس یوٹرن کے جواب میں موصوف کو 35 ارکان کے استعفے منظور کر کے سرپرائز بھی دیا جا چکا ہے۔ اپنا ہر تھوکا چاٹنے اور ہر بات پر یوٹرن کی عادتیں تو عمران خان کی سرشت میں شامل ہیں اور ان حرکتوں نے اس منتشر مزاج شخص کو ہر بار ذلیل و رسوا کروایا۔
حکومت سے نکلنے کے بعد سیاسی میدان میں پے در پے شکست ہوئی تو عوامی مقبولیت کا شور برپا کیا مگر اب سندھ کے بلدیاتی انتخابات نے اس بھرم کو بھی چکنا چور کر دیا۔ فرقہ تحریکِ انصاف کے پیروکار اگر اس ذلالت بھری زندگی کو سیاست کہتے ہیں تو پھر یقیناً انہیں سیاست کا مفہوم معلوم نہیں۔
عمرانی فتنہ کے ڈسے ہوئے مریض اگر ایسے شکست خوردہ شخص کو سیاست کا سلطان سمجھتے ہیں تو پھر یقیناً انہیں علاج اور اخلاقی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ عمران خان کبھی بھی سیاستدان نہیں رہا اور یقیناً اپنی اس روش کے ساتھ کبھی سیاستدان بن ہی نہیں سکتا، وہ سیاست میں صرف ایک چھاتا بردار گھس بیٹھیا ہے۔
سیاست رواداری، برداشت، حوصلہ، صبر، حکمتِ عملی، دور اندیشی اور حب الوطنی کے ساتھ دستور کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر ملک و قوم کی بھلائی کیلئے ہونی چاہیے۔ سازشیں رچانے، جھوٹ بولنے، لوگوں کو گمراہ کرنے، قوم کو تقسیم کرنے اور خانہ جنگی کو ہوا دینے کا نام سیاست نہیں بلکہ منافقت ہے۔