پاکستان میں پٹرول کی قیمت میں پینتیس روپے اضافہ ہونا کسی طور قابل قبول نہیں کیونکہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے براہ راست مہنگائی میں اضافہ ہوجاتا ہے اورپاکستانی متوسط اور غریب طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے اسکی مشکلات مزید تر ہوگئی ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال پچھلے چند برس سے دگرگوں ہے ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے فوری بعد موجودہ حکومت معاشی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر نئے انتخابات کا اعلان کردیتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں پچھلی حکومت کی تمام ترکوتاہیاں ناکامیاں اس حکومت کے کھاتے میں ڈل گئی ہیں۔
اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر آئی ایم کی شرائط پر عمل نہیں کیا جاتا اور انکے جو دو ریویو تعطل کا شکار ہیں نہیں ہوتے تو پاکستان کو مطلوبہ رقم نہیں ملتی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں دوست ممالک سے بھی پاکستان کو رقوم ملنا مشکل ہے کیونکہ ان تمام دوست ممالک نے بھی امدادی رقم کو آئی ایم پروگرام کی بحالی کیساتھ مشروط کررکھا ہے۔
آئی ایم ایف کا پروگرام کی بحالی نہ ہونے کی صورت میں ملک ڈیفالٹ کی طرف چلا جائیگا اور اس صورت میں پھر پٹرول 500 میں بھی نہیں ملے گا ڈالر بھی شاید پانچ سو میں ہی بمشکل مل سکے مہنگائی ساٹھ فیصد سے بھی اوپر جاسکتی ہے جسکی مثال سری لنکا ہے جہاں ملک ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں مہنگائی ساٹھ فیصد ہوچکی ہے۔
اس سب میں موجودہ حکومت کو بری الذمہ اسلئے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اگر تمام حالات سامنے تھے اور اسکے باوجود حکومت میں جانے کا فیصلہ کرہی لیا تھا تو آتے ہی عوام کو تمام صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے تھا کہ پاکستان کس مشکل صورتحال سے دوچار ہے آئی ایم ایف سے تحریک انصاف کی پچھلی حکومت نے کیا معاہدہ اور کن شرائط پر کیا اور اس معاہدے کو توڑنے کی پاکستان کوکیا قیمت ادا کرنا پڑی۔
حکومت کواب سارا بوجھ صرف متوسط اور غریب طبقہ پرہی ڈالنا نہیں چاہیے بالکہ اب اشرافیہ پر بھی اس بوجھ کو منتقل کرنا چاہیے کیونکہ جب تک اشرافیہ اس بوجھ کو نہیں اٹھاتی ملکی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی اب شارٹ ٹرم کی بجائے لانگ ٹرم اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔
موجودہ حکومت پر پی آر کی کمزوری اور عوام کو معیشت کی درست تصویر نہ دکھانے کی بھر پورذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر سربراہ تحریک انصاف عمران خان اپنی چارسالہ بدترین کارکردگی والی حکومت کے باوجود ہر روز عوام سے جلسوں اور وڈیو خطابات کے ذریعہ رابطہ رکھ سکتے ہیں انکو اپنی وہ کارکردگی (جو تھی ہی نہیں) کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیان کرسکتے ہیں اوراس حکومت پر معاشی بدحالی اور ناکامی کی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں تو موجودہ حکومت کیلئے کیا امر مانع ہے کہ وہ عوام کو آج تک معاشی ابتر صورتحال کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکی۔
موجودہ حکومت پچھلی حکومت کی نااہلی اور ناکامیوں کی درست تصویر عوام کو دکھانے سے قاصر رہی ہے جس کی وجہ سے موجودہ معاشی ابتر صورتحال بنی ہے آج سے پانچ برس قبل 2017 میں کیوں پٹرول سستا تھا ڈالر کیوں اب سے آدھی قیمت سے بھی کم تھا روز مرہ کھانے پینے کی اشیا کیوں سستی تھیں اوریہ سب کچھ 2018 کے انتخابات کے بعد آنیوالی حکومت کے دور میں مہنگا ترین ہونا کیوں شروع ہوا۔
اگرسابق وزیراعظم ہر روز عوام کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے لگا سکتے ہیں تو موجودہ حکومت جو بہت تجربہ کار لوگوں پر مشتمل ہے اسکو بھی موجودہ دور کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اورپی آر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کاونٹر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے عوام کودرست تصویر اور حالات سے باخبر کرنا چاہیے تھا عوام کو اعتماد میں لے کر سچ بتانا چاہیے تھا اورپچھلی حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کوپبلک کرنا چاہیے تھا جس میں تیل کی قیمتیں بڑھانا ڈالر کی قیمت کا تعین اور کہاں اور کتنا ٹیکس لگایا جانے سمیت دوسرے پوائنٹس شامل ہیں اور اگر یہ حکومت اب بھی ایسا نہیں کرتی تو پھرآئیندہ الیکشن میں آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی صورتحال سے دوچار ہوگی اور رہ گئی عوام تو انکو ٹرک کی نئی بتی کے پیچھے لگانے والوں کی زنبیلیں سائفر ایبسیلیوٹلی ناٹ امریکی سازش بیرونی سازش جیسے بیانیوں سے بھری پڑی ہیں۔