وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کردیا۔ واضع رہے کہ منی بجٹ آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے پیش کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ نے اس موقع پر کہا کہ آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ کسی ایک حکومت کا نہیں ہوتا بالکہ ریاست کا ہوتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت اپنے ہی کیے گئے آئی ایم ایف سے اس معاہدے سےانحراف کرگئی جس پر انہوں نے خود دستخط کیے تھے اورجس کی وجہ سے پاکستان کو آج مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی موجودہ حکومت کواپنی قومی ذمہ داری پوری کرتے ہوئےمعاہدے کی پاسداری پرمجبور ہے
وزیر خزانہ نے منی بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ کیا جارہا ہے جو سترہ سے بڑھ کر اٹھارہ فیصد ہوجائیگا۔
لگژری آئیٹمز پر ٹیکس سترہ فیصد سے بڑھا کر پچیس فیصد کردیا گیا ہے۔
فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس ہوائی سفر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بیس ہزار روپے یا پچاس فیصد جو بھی زیادہ ہوگی بڑھا دی گئی ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈیڑھ روپے سے بڑھا کر دو روپے کردی گئی ہے۔
شادی بیاہ کی تقریبات پر دس فیصد ٹیکس لگایا جارہا ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں بھی اضافہ کرتے ہوئے اسکا حجم بڑھایا جارہا ہے۔
سگریٹ پر ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اسکے ساتھ ساتھ شوگر والے ڈرنکس پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کی روز مرہ استعمال کی چیزیں جن میں گندم، چاول، دودھ،دالوں، سبزیوں، پھلوں، مچھلی، انڈوں، گوشت وغیرہ شامل ہیں پر اضافی سیلز ٹیکس نہیں لگایا جارہا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد سے لیکر مجموعی قرضوں کا حجم 2018 تک پچیس ہزار ارب کے قریب تھا اسکو تحریک انصاف نے صرف چار برس میں 20 ہزار ارب بڑھا کر 44 ہزار ارب سے بھی زیادہ کردیا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن ن لیگ حکومت کے اختتام پر 2018 میں 100 ارب ڈالر کے قریب تھا اسکو تحریک انصاف حکومت نے اپنے چار برس کے بعد صرف 26 ارب پر لا کھڑا کیا۔
اس موقع پر وزیر خزانہ نے کہا کہ ن لیگ کے پانچ دور میں جی ڈی پی میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ تحریک انصاف اپنے چار سالہ دور میں ناکام پالیسیوں کے باعث جی ڈی پی میں صرف26 ارب کا اضافہ کرسکی۔