وہ لوگ جنہوں نے روزِ اول سے ہی عمران خان کو ایک زبان دراز ڈھونگی اور دھوکے باز کے طور پر پہچان لیا تھا؛ ان کی عقل، فہم اور فراست کی تو کیا ہی بات کریں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو دس سال خیبر پختونخواہ میں تباہی اور پونے چار سال مرکز میں بربادی مچانے کے باوجود عمران خان کو لیڈر اور آئیڈیل مانتے ہیں اور اس کے لیے جان کی بازی(منہ زبانی) لگانے کو بھی تیار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ لاہور سے جیل صرف 81 گئے، پشاور سے کوئی نہیں اور راولپنڈی سے ابھی تک صرف 10 کے گرفتاری دینے کی خبر آئی ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔
اصل موضوع یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہے کہ کچھ لوگ ابھی تک عمران خان عمران خان کرتے نظر آتے ہیں؟
ہمارے اردگرد جوان، بچے، بڑے بوڑھے، ہمارے بزرگ، ہمارے ہم عمر اور ہمارے بچوں میں بھی عمران خان کے لیے پسندیدگی نظر آتی ہے جبکہ سیاسی میدان میں اور بطور وزیراعظم عمران خان کے کریڈٹ پر کوئی ایک کارنامہ بھی نہیں ہے۔
جب تک اقتدار پر مسلط رہا تو اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے دبکا رہا اور جیسے ہی اقتدار سے نکلا تو اسی اسٹیبلشمنٹ کے لتے لینے شروع کر دئیے؛ وہ بھی صرف اس لیے کہ اسے اقتدار سے کیوں نکالا ؟جبکہ وہ بیبا بچہ بن کر ہر بات مانتا تھا۔
عمران خان کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کی شفقت کا ہاتھ ہے، یہ بات تو 2014 دھرنے کے دوران ہی کھل کر سامنے آ گئی تھی جب چند ہزار کے ہجوم کو لے کر منتخب وزیراعظم کو مستعفی ہو جانے کے پیغامات بھجوائے جاتے تھے۔ بہت سے آئین پسند اس وقت بھی پی ٹی آئی کی سپورٹ چھوڑ گئے تھے لیکن بہرحال بہت سے ایسے بھی تھے جو بلند بانگ دعوؤں کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے اور بالآخر 2018 کے عام انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر ان بلند بانگ دعوؤں کی حقیقت جاننے کا موقع دے دیا گیا۔
حکومت کے پہلے ہی سال آنے والے ادویات، چینی اور آٹا سکینڈل نے ایمانداری کے ڈھول کا پول کھولا تو مثبت رپورٹنگ کے سائے تلے صبر و انتظار کے پیغامات کے ساتھ ساتھ دبی دبی آوازیں یہ بھی سننے کو ملیں کہ خود تو ‘کورپٹ’ نہیں ہے نا !!!
لیکن پھر تو نالائقی و نااہلی کا جمعہ بازار ہی لگ گیا۔اگرچہ مثبت رپورٹنگ کا دور تھا، اداروں کی سپورٹ تھی، اعلیٰ فوجی افسران دائیں بائیں کھڑے تھے اور میڈیا و سوشل میڈیا پر حمایت کرنے والوں کے لیے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے اور وہ گوبر کو حلوہ بنا کر پیش کرنے میں پیش پیش تھے۔
مخالفین کو سیاسی مقدمات اور گرفتاریوں میں الجھا رکھا تھا اور ان کی چوں تک نہ نکلتی تھی لیکن بہر حال وہ کہتے ہیں نا کہ حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے تو یہی کچھ عمران خان کے معاملے میں بھی تھا۔
موصوف نے ساری عمر صرف الزامات ہی لگائے تھے اور بلند و بانگ دعوے ہی کیے تھے۔ اب بھی بس زبان ہی چلتی رہی اور ملکی معاملات بد سے بدتر اور بدترین ہوتے چلے گئے کہ مسلط کرنے والوں کو بھی اپنی عزت کی پڑ گئی۔
پھر ایمانداری کا بھرم بھی کھلتا ہی چلا گیا۔
توشہ خانے کے تحائف کی چوری اور انہیں بیچنے کا معاملہ سامنے آیا، ملک ریاض سے رشوت اور ہیرے کی انگوٹھیوں کی فرمائشیں، اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں تبادلوں اور پوسٹنگز میں رشوت کی کہانیاں کھلنے لگیں اور اس طرح ‘کورپٹ تو نہیں ہے’ کا بھانڈا سرِ بازار پھوٹ گیا۔
یہ تو ہوئی مالی کرپشن اور اب اخلاق و کردار کی بات کرتے ہیں تو موصوف کا کردار کیسا ہے؟ یہ بات تو 80 کی دہائی سے ہی دنیا جانتی ہے۔ وہ کردار جس کے بارے میں دعویٰ یہ تھا کہ وہ ماضی کا قصہ ہے اور اب موصوف توبہ کر کے رحونیت کی طرف مائل ہیں اور اسی رحونیت کی وجہ سے بشریٰ بی بی ان کی زندگی میں آئیں اور ایسی آئیں کہ صبر کا پیمانہ لبریز کرتے ہوئے عدت میں ہی نکاح کر بیٹھے؛ خیر اسے ذاتی زندگی کہہ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بعد ازاں آنے والی آڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ موصوف نے توبہ تو کبھی کی ہی نہیں بلکہ دوران وزارتِ عظمیٰ بھی وہ اپنے انہیں ازلی کرتوتوں کا گند گھولتے رہے۔
یعنی عمران خان نہ تو ایماندار ہے، نہ صاحبِ کردار ہے اور نہ ہی اس میں ملک چلانے کی کوئی اہلیت ہے تو پھر اب سوال وہی جس کا ذکر آغاز میں کیا تھا کہ ایسا کیا ہے کہ لوگ آج بھی اسے فالو کر رہے اور لیڈر مانتے ہیں؟
یقیناً آپ سب بھی یہ بات سوچتے ہوں گے کہ آخر کیوں عمران خان اپنی تمام تر مالی، اخلاقی اور کردار کی بددیانتی کے باوجود جوانوں اور بزرگوں میں یکساں مقبول ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی زندگیوں کی کمیوں، کجیوں اور کمزوریوں سے عاجز عمران خان میں اپنا آئیڈیل تلاش کرتے ہیں۔ انہیں اگر موقع ملتا تو یہ عمران خان جیسی زندگی گزارتے لیکن معاشرتی پابندیوں، مذہبی حدبندیوں اور ذاتی کمزوریوں نے ان کی بہت سی خواہشات کو تشنہ چھوڑ دیا۔
بہرحال یہ ایک رخ اور پہلو ہے لیکن یہ پہلو مجھے اس لیے توانا لگتا ہے کہ اگر انہیں تکلیف کسی کرپشن، بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال یا کک بیکس سے ہوتی تو پھر یہ سوال تو وہ عمران خان سے بھی کرتے کہ آخر کرپشن کے خلاف جدو جہد کا نعرہ لگانے والے عمران خان نے خود کرپشن سے ہاتھ کیوں رنگے؟ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثالیں دینے والا اپنے احتساب سے کیوں بھاگتا ہے؟ امیر اور غریب کے لیے ایک جیسے انصاف کے معیار کے دعویدار کا پیمانہ اپنے لیے مختلف کیوں ہے؟ ریاستِ مدینہ بنانے کے دعوے کرنے والے کا کردار کیوں مثالی نہیں ہے؟ صادق و امین کا سرٹیفکیٹ لینے والے نے اس سرٹیفکیٹ کی لاج کیوں نہیں رکھی؟
خوبصورت تحریر
ماشااللہ
بہت خوب۔ اچھا تجزیہ ہے۔