ہم اپنے روزمرہ کے مشاہدے میں کئی بہروپیے دیکھتے ہیں۔کچھ لوگ روزگار کے لئے بہروپ بھرتے ہیں جیسے اکثر پٹرول پمپس پر جوکر کا بہروپ دھارے لوگ۔کچھ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بہروپیے بن جاتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو گنڈے تعویذ پر لگا کر مال بناتے ہیں۔ان میں سے بیشتر ایسے ہوتے ہیں جنہیں قران پاک کی مختصر ترین سورتیں بھی یاد نہیں ہوتیں۔
ایسا ہی ایک بہروپیا عمران خان ہے جو سیاست کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان میں انتشار اور انارکی کے مذموم مقاصد پورے کرنے کے مشن پر ہے۔
نوے کی دھائ تک ایک اوسط درجے کا کرکٹر جو اصل زندگی میں پلے بواے کی حیثیت سے مشہور تھا اور آے دن پرنٹ میڈیا پر اپنے غلیظ سکینڈلز کی وجہ سے جانا جاتا تھا ایکدم سیاست میں اینٹری دیتا ہے۔
اس سے پہلے یہ بہروپیا شوکت خانم کے نام پر فلاحی کام کا لبادہ اوڑھتا ہے تاکہ عوام اس کے سابقہ کرتوت بھول جائیں۔
اس کے بعد یہ شوکت خانم کی آڑ میں کی گئی فارن فنڈنگ سے ایک پارٹی بناتا ہے تاکہ سیاست دان کا بہروپ بھر سکے۔
چونکہ اسوقت کے سیاسی لوگ اسکا ماضی جانتے تھے لہذا کسی نے اسے سیاست میں سنجیدہ نہیں لیا اور اسکی پارٹی تانگہ پارٹی کہلائ جانے لگی۔
لیکن اس بدبخت کا ایجنڈہ دراصل نئی نسل کی ذہن سازی،ملکی سیاست میں گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دینا،پاکستانی معاشرتی اقدار کی بربادی اور خدنخواستہ پاکستان کی معاشی بربادی تھا لہذا یہ فتنہ کینسر کی مانند آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔
اس نے اپنا ٹارگٹ نوجوان نسل کو کیا کیونکہ یہ جانتا تھا کہ ملک کے نوجوان ہی دراصل اسکا مستقبل ہوتے ہیں لہذا اس نے ان کے ذہنوں میں گند بھرنا شروع کردیا۔
اس بہروپیے نے وہ باتیں کرنا شروع کیں جو کسی بھی نوجوان کی ذہن سازی کے لئے کافی تھیں۔اس بدبخت فتنے نے ان نوجوانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ جیسے یہ انکا نجات دہندہ ہے۔اسی دوران یہ اپنے غلیظ ایجنڈے جس میں نئی نسل کو گالم گلوچ کی طرف مائل کرنا،ان کو تشدد پر اکسانا،عدم برداشت سکھانا،پر تیزی سے کام کرتا رہا۔
اس بہروپیے نے اس دوران مذہب کا بھی استعمال کیا۔اپنا حلیہ تبدیل کیا۔مغرب میں ساحلوں پر نیم برہنہ لڑکیوں کے ساتھ عیاشی کرنے والے پلے بواے نے یکایک شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہننا شروع کردی ہاتھ میں ایک عدد تسبیح پکڑ لی۔نماز پڑھتے ہوے کی تصاویر کا تڑکہ لگایا اور پاکستان کی سیاست میں شامل ہوگیا۔
ہمیشہ سے اسکی پہلی اور آخری ترجیح اقتدار تھی جس کے لئے اس نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کا پولنگ ایجنٹ تک بننا قبول کیا اور اسے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تاکہ کسی طرح اقتدار کی کرسی اس فتنے کو مل جاے اور یہ اپنا اصل ایجنڈا یعنی خدانخواستہ پاکستان کی معاشی بربادی کر سکے۔
اسکی مراد 2011میں بر آئ جب اسوقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا ظہیرالاسلام اور شجاع پاشا نے اس فتنے کو باقاعدہ گود لے لیا اور ایک ایسی تانگہ پارٹی جس کی اسمبلی میں صرف ایک نشست تھی اس کے لئے مینار پاکستان پر عظیم الشان جلسہ “ارینج” کروایا۔
بیساکھیاں ملنے کے کی دیر تھی اور یہ بہروپیا اپنے اصل مقصد یعنی ہنستے بستے پاکستان کی معاشی و اخلاقی بربادی کرنے پر آگیا۔ 2014 کا پلانٹڈ دھرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں اس بہروپئیے نے نوجوانوں سے پی ٹی وی،پارلیمنٹ ہاوس پر حملے کرواے،پولیس والوں پر تشدد کروایا اور ملک کی نئی نسل کو یہ سکھایا کہ سیاست میں تہذیب و لحاظ کچھ نہیں۔
اب چونکہ پراجیکٹ فتنہ عمران 2011سے زیر تعیمر تھا اور اسکی تکمیل بھی ضروری تھی لہذا 2018میں اس بہروپیے کو الیکشن جتوا کر اسے شیروانی پہنا کر پی ایم کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔
بس اس دن سے پاکستان کی معیشت،اخلاقیات،تہذیب،طرز سیاست کو گویا دیمک لگنا شروع ہوگئی کیونکہ کرسی پر وہ بہروپیا براجمان تھا جو اس کرسی پر اسی لئے بیٹھنے آیا تھا تاکہ ایک آٹھویں عالمی معیشت بننے والے واحد اسلامی ایٹمی ملک کو خدانخواستہ برباد کرسکے۔
پونے چار سال یہ بدبخت فتنہ اس ملک پر اپنے سہولتکاروں کی بیساکھیوں سے مسلط رہا اور اس دوران اس نے آئ ایم ایف سے وہ معاہدہ کیا کہ جسکی داد صرف دشمن ہی دے سکتا ہے۔
ملک کی تاریخ کا ستر سال کا قرضہ ایک طرف اور اس نااہل کا لیا جانے والا قرضہ اس سے بھی زیادہ تھا۔
پچاس لاکھ گھر ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والا نوسرباز اقتدار ملتے ہی لوٹ مار میں لگ گیا۔توشہ خانہ،القادر ٹرسٹ،آٹا،چینی،ادویات،بی آر ٹی پشاور،مالم جبہ،اس کے لوٹ مار کے ثبوتوں کے ساتھ کئے گئے ڈاکے ہیں۔
یہ بدبخت ملک کو دیوالیہ پن کی نہج تک لے آیا جو کہ اس بہروپئے نوسرباز کی سیاست میں آمد کا اصل مقصد تھا۔اسوقت کی اپوزیشن اور آج کی حکومت نے پھر ریاست کو سیاست پر ترجیح دیتے ہوے اسے عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر پھینکا ورنہ شائد آج ہم واقعی سری لنکا والی صورتحال کا شکار ہوتے۔
مگر یہ بدبخت فتنہ باز نہ آیا اور 9اپریل 2022 کو اقتدار سے گرم چمٹے سے اتارے جانے کے بعد اس نے ملک میں ایک دن بھی سیاسی استحکام نہیں آنے دیا کیونکہ یہ جانتا ہے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے لہذا یہ بہروپیا مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ملک میں افراتفری رہے۔
اس بہروپیئے کے فراڈ کی تازہ ترین مثال وہ جعلی پلستر ہے جسے پہن کر یہ قانون اور عدالتوں سے چھپنے کے ناکام کوشش کررہا ہے اور روز میڈیا پر پرانی بکواس کرکے عوام کو اکسانے کی کوشش کرتا ہے۔
ویسے تو اس بہروپیے کو اب عوام کی ایک بڑی تعداد پہچان چکی ہے مگر ابھی بھی کچھ گمراہ لوگ اس فتنے کے فین کلب میں شامل ہیں جن کو اسکا کلٹ کہا جاتا ہے۔
امید ہے کہ ایسے بہروپیوں کو عوام الیکشن میں بری طرح مسترد کرے گی کیونکہ یہ صرف ایک نوسرباز فتنہ ہے جس کے لئے سب کچھ کرسی اور اقتدار ہے۔اسکا ایجنڈہ آج بھی خدانخواستہ پاکستان کی بربادی ہے۔
شاندار تجیزا