مسلم لیگ کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز کا کہنا ہے کہ جو جو ناانصافیاں نواز شریف کے ساتھ ہوئیں انکے لیے جو عدل کے علیحدہ معیار قائم کیے گئے اس پر جو وکلا نے کردار ادا کیا وہ بہت لائق تحسین ہے اور انکے بیانیے کو جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے یہ بات انہوں نے وکلا کے وفد سے بات کرتے ہوئے کہی۔
چیف آرگنائزر ن لیگ نے کہا کہ تحریک انصاف کی پوری سیاست تقرریوں کے گرد سہولتکاروں اور بیساکھیوں کے گرد گھومتی ہے اور انہوں نے کل لاہور کے جلسہ میں یہ بات کردی جو یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن اکتوبر میں ہوئے تو تب تک موجودہ چیف جسٹس چلے جائینگے پہلے انکے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے کردار تھے جو جاچکے اب انہوں نے جیوڈیشل اسٹیبلشمنٹ ڈھونڈ لی ہے۔
مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ انکا ایک سہولتکار جنرل باجوہ جو اسکو لانے والا تھا اس نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور خود کہہ اٹھا کہ یہ پاکستان کیلئے خطرناک تھا اب اسکے لانے والوں کی جو باقیات عدلیہ میں موجود ہیں ان پر اب یہ تکیہ کرکے بیٹھا ہوا ہے۔ یہی جرل باجوہ کہتا ہے کہ ججز بیگمات کے کہنے پر اور انکے پریشر میں فیصلے کرتے ہیں۔
اس کا ثبوت پوری قوم نے دیکھا کہ جب نواز شریف کے کیس کا فیصلہ ہونا تھا تب پانامہ بنچ ججز کی بیگمات اور بچے عدالت میں موجود تھے اور انکو فیصلے کا پہلے ہی پتہ تھا، مریم نواز
ن لیگی لیڈر کا کہنا تھا کہ ایک شخص جس نے سرعام پاکستان کاقانون توڑا مذاق اڑایا اپنے پاوں تلے روندا عدالت پیش ہونے کے ڈر سے اپنے گھر میں چھپا رہا کبھی بیماری کا بہانہ کبھی پلستر کا بہانہ کبھی کہتا میری جان کو خطرہ ہے اور اگر گیا تو پھر جتھے لیکر عدالتوں پر حملہ آور ہوا ایسی سہولت پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
سینئر نائب صدر ن لیگ نے کہا کہ نواز شریف کا کیس دنیا کا واحد کیس ہے جس میں قانون کا سر شرم سے جھک گیا کہ ایک منتخب وزیراعظم کو بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لیکر اسے گھر بھیج دیا گیا۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران خان وہ شخص ہے جو عدالت کو بڑی ڈھٹائی کیساتھ flout کرتا ہے اور جب بھی عدالت جاتا ہے اسے تھوک کے حساب سے چند منٹوں میں ضمانتیں دے دی جاتی ہیں یہ ٹیرین کیس میں عدالت جانے سے ہی گریزاں ہے اور جب پولیس عدالت کے آرڈرز پر عمل درآمد کیلئےزمان پارک گئی تو ان پر پٹرول بم پھینکے گئے ان پر غلیلوں سے حملہ کیا گیا انکے سر پھاڑے گئے اس پر کیوں ایکشن نہیں ہوتا آئین قانون کہاں سو رہا ہے کون اس کو آج بھی تحفظ دے رہا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ آج اسے آئین یاد آگیا ہے اسے تب آئین کیوں یاد نہیں آیا جب اس نے قومی اسمبلی توڑ کر آئین کو روندا اور توڑا ایسے شخص پر تو آرٹیکل چھے لگتا ہے لیکن اسے تو کچھ نہیں کہا گیا کوئی سزا نہیں دی گئی لیکن نواز شریف کو تو ایک ایکسپائرڈ اقامہ کو بنیاد بنا کر نااہل کردیا گیا اسکی بیٹی سمیت پوری ن لیگ کی قیادت کو جیل ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ بنتا ہے کہ ایک ایسے شخص کو جس نے پاکستان کے آئین قانون جمہوریت اسمبلیوں اور جمہوریت کو کھیل سمجھا ہوا ہے اسکے فیصلوں پر یہ ملک کیسے چل سکتا ہے وہ جب چاہے اسمبلی توڑ دے تقرری کو متنازعہ بنا دے ملک میں انارکی پھیلا دے اور کیا اس پر پاکستان کی ریاست چپ کرکے تماشہ دیکھتی رہے گی۔
ن لیگی لیڈر نے کہا کہ پاکستان کے آئین کو از سر نو ایسے تحریر کیا گیا اسکو خود تحریر کرنے والے اسے جسٹیفائی کرنے سے قاصر ہیں جو آئین قانون عدلیہ اور عدل پر بہت بڑا کلنک ہے۔
مریم نواز نے اس موقع پر کہا کہ توہین عدالت تب ہوتی ہے جب عدالت سے عدل اور انصاف نہیں ہوتا اور کرپٹ ججز کو تحفظ دیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ جو متنازع نوٹ جسٹس مظاہر نقوی اور اعجازالاحسن نے لکھا اور متنازع سوموٹو لیا گیا جو متنازع بنچ بنایا گیا اس میں سہولتکاری شامل ہے جسٹس مظاہر نقوی کے فنانشل معاملات کا سپریم جیوڈیشل کونسل میں کیس ہے لیکن الٹا انکو بنچ نمبر ایک میں ڈال دیا گیا ہے۔
چیف آرگنائزر ن لیگ نے کہا کہ جو آڈیو سامنے آئی ہے جس میں پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں ٹرک کھڑا کرنے کا ذکر ہورہا ہےیاسمین راشد کہتی ہے سپریم کورٹ میں ہمارے بندے بیٹھے ہیں پرویز الہی کہتا ہے کہ اس بنچ میں میرا کیس لگاو اور جو اس ناانصافی کیخلاف آواز اٹھائے اس پر توہین عدالت لگا دی جاتی ہے۔ عدل انصاف اور عدلیہ کی عزت اسکے فیصلوں سے ہوتی ہے اسکے فیصلے بولتے ہیں یہاں پر ٹرک بول رہے ہیں ججز کی بیگمات اور ان کے بچے بول رہے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ کیا پاکستان میں یہ روایت ہوگی ایک منشیات زدہ بیوقوف شخص کے فیصلوں کی وجہ سے ساڑھے چار بس بعد پنجاب اور پختونخواہ دو صوبوں کا الیکشن ہوگا اور پانچ برس بعد مرکز اور بقیہ صوبوں میں الیکشن ہونگے۔ انکا کہنا تھا کہ جب سے یہ فتنہ پاکستان کی سیاست میں آیا ہے تب سے پاکستان نے سکھ کا سانس نہیں لیا۔ جب نواز شریف کے دور میں ہر چیز بہتر جارہی تھی تو پھر کیوں اس نااہل کے حوالے ملک کو کیا گیا سوال اب سے نہیں ہوگا سوال 2017 سے ہوگا کیونکہ ملک کا زوال تب سے شروع ہوگیا تھا۔