صحافی شاہد میتلا نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں ان سے کچھ سوالات پوچھے اور نومبر 2022 میں تین سالہ ایکسٹینشن مکمل ہونے پر ریٹائر ہونے والے جنرل باجوہ نے جواب میں بہت سارے انکشافات کیے۔ اس ملاقات کی روداد جرنلسٹ شاہد میتلا یوٹیوب چینل پر قسط وار سنا رہے ہیں۔ 29 مارچ 2023 کو انہوں نے تیسری قسط بیان کی ہے۔
صحافی شاہد میتلا نے سوال پوچھا کہ کیا نواز شریف کو عدالت سے آپ نے نااہل کروایا تھا؟
جنرل (ر) قمر باجوہ نے جواب دیا کہ میرے آرمی چیف بننے سے پہلے ہی تحریکِ انصاف کے دوسرے لانگ مارچ کے دوران سپریم کورٹ پانامہ پیپرز پر سماعت شروع کر چکی تھی اور آپ سپریم کورٹ کے ججز کو کیا سمجھتے ہیں؟ آپ پاکستان کی فوج کو کیا سمجھتے ہیں؟ ہم ہر معاملہ پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ سپریم کورٹ کے ججز خود بھی بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں، میں نے سپریم کورٹ تک رسائی حاصل نہیں کی تھی، جنرل فیض نے ایسا کچھ کیا ہو تو یہ الگ بات ہے۔e
شاہد میتلا نے سوال پوچھا کہ کیا جنرل فیض یہ کام خود سے کر سکتے تھے؟
سابق آرمی چیف نے کہا کہ جب آپ کسی سے آٹھ کام کروا رہے ہوں اور وہ آٹھ کی بجائے دس کر لے تو آپ اس سے پوچھ نہیں سکتے اور دنیا بھر میں انٹیلی جینس ایجنسیز اسی طرح بہت سارے کام اپنی مرضی سے بھی کر رہی ہوتی ہیں۔
جرنلسٹ نے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا آپ نے نواز شریف کو نااہل کروایا تھا؟
جواب ملا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ یہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز کا اپنا فیصلہ تھا۔ جب ججز ایسا کچھ کہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ جسٹس کھوسہ شریف فیملی سے ذاتی عناد بھی رکھتے تھے، شہباز شریف نے نوے کی دہائی میں ان کی بہن کو طلاق دی تھی۔ مجھے نواز شریف نے آرمی چیف بنایا تھا تو میں کیسے ان کو نااہل کروا سکتا تھا؟ نواز شریف ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور بہت ڈیسنٹ رہے تھے، فوج کا ان کی نااہلی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ سپریم کورٹ نے فوج کو ثبوت لانے کا ٹاسک دیا تھا جو کہ فوج نے مہیا کر دیئے تھے۔ جنرل عاصم منیر کے عرب ممالک میں اچھے تعلقات تھے، میں نے ان کو متحدہ عرب امارات بھیجا اور وہ نواز شریف کا اقامہ لے آئے۔
اس پر شاہد میتلا نے پوچھا کہ کیا متحدہ عرب امارات نے اس لیے اقامہ دے دیا کہ وہ یمن جنگ میں ساتھ نہ دینے پر نواز شریف سے ناراض تھا؟
جنرل (ر) باجوہ نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاناما کیس عدالت میں زیرِ سماعت تھا تو شاہد خاقان عباسی میرے پاس آئے اور مجھے دامنِ کوہ لے گئے جہاں ہم تین گھنٹے بیٹھے رہے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آپ اس کیس میں نواز شریف کی مدد کریں۔ میں نے کہا کہ ان کی زیادہ مدد نہیں کر سکتا کیونکہ انہوں نے خود بہت ساری غلطیاں کی ہیں، نواز شریف کو صرف یہ کہنا چاہیے تھا کہ لندن فلیٹس میرے والد نے خریدے اور میرے بچوں کو منتقل کر دئیے، اس طرح نواز شریف پر ثبوتوں کا بوجھ بھی نہ آتا اور قطری خط بھی نہ لانا پڑتا۔ مجھے کسی دوست نے بتایا تھا کہ میاں شریف نے ڈائیوو سے پانچ ملین ڈالرز رشوت لی تھی جس میں سے تین ملین ڈالرز کے عوض لندن میں فلیٹس خریدے اور باقی دو ملین ڈالرز جہاد کیلئے یا شاید کسی فلاحی ٹرسٹ کو دے دئیے تھے۔ جنرل (ر) قمر باجوہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس شخص کی بات سن کر جواب دیا کہ “اچھا میاں شریف نیکی کا کام بھی کرتے تھے”.
سابق آرمی چیف نے مزید کہا کہ چوہدری نثار نے نواز شریف کو جے آئی ٹی کیلئے سپریم کورٹ کو خط لکھنے سے منع کیا تھا، پھر چوہدری نثار نے آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران کو جے آئی ٹی میں شامل نہ کرنے کا بھی کہا تھا مگر نواز شریف نے ان کی بات نہ مانی۔ میں نے بھی چار پانچ بندوں کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ جے آئی ٹی میں فوج کے افسران کی شمولیت کی مخالفت کریں مگر نواز شریف نہیں مانے کیونکہ وہ بڑے پراعتماد تھے، انہیں یقین تھا کہ ان کے پاس دستاویزات مکمل ہیں۔ نواز شریف جے آئی ٹی میں فوج کے افسران کی شمولیت پر اس لیے رضامند تھے کہ وہ اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ لگوانا چاہتے تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف اس کیس میں باعزت بری ہو جاتے تو اس کا سارا ملبہ فوج پر ہی گرنا تھا۔
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تو میں نے ڈی جی آئی ایس آئی کو بلا کر کہا کہ ہمیں اس معاملہ سے الگ ہو جانا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم ہے، ہم کیسے نکل سکتے ہیں؟ میں نے اپنے بیٹے بیرسٹر سعد باجوہ سے سپریم کورٹ کے نام خط بھی لکھوایا کیونکہ سعد باجوہ انگریزی بہت اچھی لکھتے ہیں۔ میں نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر معذرت کرنے کا ارادہ کور کمانڈر کانفرنس میں ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ فوج ماتحت ادارہ ہے اور ہم اس طرح سپریم کورٹ کو خط نہیں لکھ سکتے لہذا خط نہیں بھیجا گیا۔
صحافی شاہد میتلا نے استفسار کیا کہ پھر نواز شریف کی نااہلی کیسے ہوئی؟ کیا سپریم کورٹ میں انصافی جج ہیں؟ (صحافی شاہد میتلا نے یہاں “انصافی” کی بجائے کوئی اور لفظ استعمال کیا تھا)
اس سوال کے جواب میں سابق آرمی چیف نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ ہم جنرلز بھی تو انصافی (وہی لفظ جو سوال میں پوچھا گیا) تھے جو عمران خان کے عشق میں گرفتار تھے اور سمجھتے تھے کہ تحریکِ انصاف نئی پارٹی ہے، نئے چہرے ہیں، یہ بہتری لائیں گے مگر ہم غلط ثابت ہوئے۔
جنرل (ر) قمر باجوہ نے مزید کہا کہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں تین وجوہات کی بناء پر میں دباؤ کا شکار تھا۔ پہلی یہ کہ نواز شریف کی حکومت نے پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگا دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پاناما پیپرز کی وجہ سے میڈیا میں ہر طرف “وزیراعظم چور ہے” کی گردان شروع ہو گئی تھی۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ ڈان لیکس کا ٹویٹ واپس لیا گیا تھا جس کے بعد مریم نواز کے میڈیا سیل نے فوج کی بینڈ بجا دی تھی کہ یہ 1971 کے بعد فوج کی دوسری بڑی پسپائی ہوئی ہے۔ ان تین وجوہات کی بناء پر میں نواز شریف کی مدد نہ کر سکا۔ اسی دوران سلمان شہباز ملنے آئے اور سپریم کورٹ کے ٹرائل میں مدد کی اپیل کی تو میں نے انہیں کہا پہلے اپنی باجی کو تو سنبھالیں جس نے ٹویٹر پر ہماری ایسی کی تیسی کر دی ہے۔
صحافی نے سوال پوچھا کہ کیا شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ نواز چھوڑ دیں گے تو سابق آرمی چیف نے جواب میں اس امکان کو رد کیا اور کہا کہ شاہد خاقان عباسی بہت قابل آدمی ہیں، انہوں نے بطور وزیراعظم زبردست کام کیے، وہ معیشت کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
شاہد میتلا نے ڈان لیکس کے متعلق پوچھا تو جنرل (ر) قمر باجوہ نے کہا کہ میں آرمی چیف بنا اور نواز شریف سے ملاقات کیلئے وزیراعظم ہاؤس گیا تو ان دنوں ڈان لیکس کا بڑا چرچا تھا۔ مسلم لیگ نواز کی اقتدار میں آنے کے بعد سب سے بڑی غلطی پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگانا تھی۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ فوج کے اندر سربراہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور فوج اپنے سابق چیف پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی۔ پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگا تو فوج نواز شریف کے خلاف ہو گئی اور پھر فوج نے پرویز مشرف کو بچا بھی لیا۔ پرویز مشرف کبھی عدالت کے راستے سے غائب بھی ہو جاتے تھے اور پھر ہسپتال بھی پہنچ گئے۔
سابق آرمی چیف نے شاہد میتلا سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈان لیکس کیا تھی؟
شاہد میتلا کہتے ہیں کہ انہوں نے جواب میں جنرل (ر) قمر باجوہ کو بتایا کہ ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی سٹوری انہوں نے ہی اے آر وائی پر بریک کی تھی جو ان کے کرئیر کی بڑی سٹوریز میں سے ایک تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیرل المیڈا نے 6 اکتوبر 2016 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ شہباز شریف نے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر سے یہ کہا کہ ہم کالعدم تنظیموں کے جو دہشت گرد پکڑتے ہیں ان کو آئی ایس آئی رہا کروا لیتی ہے۔ پھر اعزاز چوہدری نے کہا تھا کہ دنیا ہمیں دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لینے کا کہہ رہی ہے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سابق آرمی چیف نے اعزاز چوہدری کی بات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے فیٹف میں یہی تو بھگتا تھا۔
جنرل (ر) قمر باجوہ نے اپنی جانب کی سٹوری سناتے ہوئے کہا کہ وہ آرمی چیف بننے کے بعد وزیراعظم سے ملاقات کیلئے گئے تو چوہدری نثار نے ان سے ڈان لیکس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کچھ عرصہ بعد چوہدری نثار کے حلقہ میں کسی تقریب پر چوہدری نثار سے ملاقات ہوئی تو چوہدری نثار نے پھر وہی بات دوہرائی۔ اس کے بعد آرمی چیف نے ڈی جی آئی ایس آئی نوید مختار کو اپنے پاس بلایا اور ڈان لیکس انکوائری کے متعلق پوچھا جس پر جواب ملا کہ کچھ ثبوت ملے ہیں جن کے مطابق سرل المیڈا اور پرویز رشید کی 70 منٹس تک فون پر بات ہوئی لیکن یہ نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی۔
سابق آرمی چیف نے مزید کہا کہ انکوائری کمیٹی نے سرل المیڈا، اظہر عباس، راؤ تحسین، طارق فاطمی اور پرویز رشید کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور درحقیقت ڈان لیکس میں کچھ بھی نہیں تھا لیکن وہ جہاں بھی جاتے، جونئیر افسران اس بارے میں سوال کرتے تھے۔ اس کے بعد سابق آرمی چیف نے چوہدری نثار اور اسحاق ڈار سے بات کی کہ صحافیوں کا کیس سی پی این ای کو بھیج دیتے ہیں کیونکہ وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے جبکہ باقی افراد کے خلاف انتظامی ایکشن کا فیصلہ ہوا تھا۔ جنرل (ر) باجوہ اس کے بعد نواز شریف کے پاس گئے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی، نواز شریف پرویز رشید کو عہدے سے نہیں ہٹانا چاہتے تھے مگر آرمی چیف کے اسرار پر وزیراعظم مان گئے اور انہوں نے پرویز رشید اور طارق فاطمی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا۔
سابق آرمی چیف کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم سے اس ملاقات کے ایک دن بعد لاہور چلے گئے اور وہاں انہوں نے اے آر وائی پر اچانک ڈان لیکس کا نوٹیفکیشن دیکھا۔ اے آر وائی نیوز نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کہ حکومت نے شریک ملزمان کو سزا نہیں دی۔ حکومت نے ادھورا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، میڈیا نے فوج پرشدید دباؤ ڈالا جس کے بعد انہوں نے آصف غفور کو فون کیا اور انگریزی میں حکومت کو برا بھلا کہا اور آصف غفور کو حکومت سے پورا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے متعلق بات کرنے کا کہا۔ جنرل آصف غفور نے اپنے طور پر ہی نوٹیفکیشن ریجیکٹڈ کا ٹویٹ کر دیا۔
جنرل (ر) قمر باجوہ کہتے ہیں اسی دن میں فاٹا چلا گیا جس کے فوراً بعد مجھے فون آ گیا کہ وزیراعظم نے ملنا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس پہنچا تو نواز شریف نے باہر آ کر استقبال کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ غصہ ہوں گے اور ناگواری کا اظہار کریں گے مگر انہوں نے کچھ نہیں کہا البتہ ملاقات کے بعد صرف اتنا کہا کہ جنرل صاحب غصے میں فیصلے نہ کیا کریں۔ میرے دل میں آیا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔ دو دن بعد وزیراعظم نواز شریف نے چین جانا تھا۔ اب جنرلز اور سیاسی راہنما میرے پاس آنا شروع ہو گئے کہ ٹویٹ واپس مت لیں اور کہا کہ کبھی فوج نے بھی کوئی چیز واپس لی ہے۔ اس دوران خواجہ آصف بھی میرے پاس آئے اور دیگر مسلم لیگیوں نے بھی آ کر یہی کہا کہ ٹویٹ واپس نہ لیں لیکن میں ملک کے وزیراعظم کو کمتر حیثیت میں چین نہیں بھیج سکتا تھا کہ چین میں ایسے وزیراعظم کی کیا حیثیت ہوتی جس کی اپنی فوج اس کے اختیار میں نہیں ہے لہذا میں نے ٹویٹ واپس لے لیا۔
جنرل (ر) قمر باجوہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل نوید مختار شریف آدمی تھے اور زیادہ بااختیار بھی نہیں تھے جبکہ جنرل فیض سارے کام کرتے تھے۔ اس پر صحافی شاہد میتلا نے سوال کیا کہ کیا جنرل فیض کو یہ اختیارات اور طاقت آپ کی طرف سے ملے تھے؟
سابق آرمی چیف نے ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم پر عمران خان کو لانے کا بھوت سوار تھا۔ ڈان لیکس کا ایشو جنرل راحیل شریف نے ایکسٹینشن لینے کیلئے بنایا تھا ورنہ اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ نواز شریف سے جب ڈان لیکس پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر جب بھی ملاقات کیلئے آتے تو جنرل راحیل شریف کیلئے ایکسٹینشن کی بات کرتے تھے۔ جنرل رضوان اختر جنرل راحیل شریف کے سامنے ان کیلئے نواز شریف سے تین سال کی ایکسٹینشن مانگتے تھے لیکن جنرل راحیل شریف کی غیر موجودگی میں وہ نواز شریف کو کہتے کہ جنرل راحیل شریف کو صرف ایک سال کی ایکسٹینشن دیں کیونکہ ایک سال کی ایکسٹینشن کے بعد جنرل رضوان اختر کا اپنا نمبر آنا تھا۔
صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ نے جنرل رضوان اختر اور عاصم باجوہ کو معاف کیسے کر دیا؟
اس سوال کے جواب میں سابق آرمی چیف نے کہا کہ میرے سامنے کوئی بھی آ جائے، میں معاف کر دیتا ہوں۔ میں جنرل رضوان اختر کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر کمان دینا چاہتا تھا لیکن مجھے رپورٹ ملی کہ وہ سیاست میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں۔ دو تین بار ان کی حرکتیں رپورٹ ہوئیں اور ان کی کرپشن کے بھی کچھ معاملات تھے تو پھر انہیں فارغ کر دیا گیا۔ عاصم باجوہ نے معافی مانگ لی تھی تو میں نے معاف کر دیا اور انہیں سدرن کمانڈ دے دی۔ جنرل عاصم منیر اکثر کہتے تھے کہ آپ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں لیکن میں اس طرح کسی کو معافی نہ دوں۔
جنرل (ر) قمر باجوہ نے مزید بتایا کہ جنرل عاصم باجوہ نے جنرل راحیل شریف کو ہیرو بننے کی ڈگر پر ڈال دیا تھا اور ان کو کہا تھا کہ میں آپ کو ہیرو بناتا ہوں، آپ کرپشن کے خلاف نعرہ لگائیں حالانکہ ضربِ عضب میں ایک گولی بھی نہیں چلی تھی۔ پھر جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف کیمپیئن شروع کر دی۔ پاناما آنے کے بعد اس کیمپیئن کی وجہ سے بھی مجھ پر دباؤ تھا۔
سابق آرمی چیف نے کہا کہ پاناما ٹرائل کے دوران میں نے شجاعت عظیم اور چوہدری منیر کو پیغام دے کر نواز شریف کی طرف بھیجا کہ اگر وہ استعفیٰ دے دیں تو نااہل ہونے سے بچ جائیں گے۔ ایک آدھ سال کے بعد الیکشن ہے تو وہ دوبارہ بھی وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ میری طرف سے یہ بہت مخلصانہ تجویز تھی کیونکہ مجھے مسلم لیگ نواز سے ہمدردی رکھنے والوں کی جانب سے بار بار اپروچ کیا جا رہا تھا۔ شجاعت عظیم اور چوہدری منیر نے فواد حسن فواد کو بتایا اور فواد حسن فواد نے نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر قائل کر لیا تھا۔ نواز شریف استعفیٰ دینے پر رضامند ہو گئے تھے مگر پھر مجھے بتایا گیا کہ عین وقت پر مریم نواز نے وزیراعظم کو استعفیٰ دینے سے منع کر دیا۔ کل کی لڑائی کیلئے انسان کو آج زندہ رہنا پڑتا ہے، جیتنے کیلئے ایک قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑ جاتا ہے جو نواز شریف نے نہیں کیا۔ شجاعت عظیم میرے سسر کے دوست تھے اور چوہدری منیر بھی میرے سسر کے دوست بن گئے، اس طرح دونوں سے میرا تعلق بن گیا تھا۔ نواز شریف سے پچھلے چار پانچ سالوں سے کبھی فون پر بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ملاقات ہوئی، صرف کلثوم نواز کے انتقال پر میں نے فون کر کے ان سے تعزیت کی۔
شاہد میتلا نے سابق آرمی چیف سے سوال پوچھا کہ کیا مریم نواز کو آپ نے رہا کروایا تھا؟
جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے خلاف بھی کیسز کمزور تھے۔ مریم نواز سے آخری ملاقات وزیراعظم ہاؤس کے عشائیہ میں ہوئی تھی تب کلثوم نواز بھی زندہ تھیں، اس کے بعد کبھی مریم نواز سے ملاقات نہیں ہوئی۔