وی نیوز کے صحافی عمار مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق معاونِ خصوصی برائے وزیراعظم ندیم افضل چن نے انکشاف کیا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں بیشتر حکومتی معاملات اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور چلاتے تھے، عمران خان انھی دو لوگوں پر انحصار کرتے تھے کیونکہ یہ عمران خان کیلئے آنکھ اور کان تھے۔ جنرل فیض اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ تحریک انصاف اور عمران حکومت کا حصہ تھے اور روزانہ وزیراعظم کے چیمبر میں پائے جاتے تھے۔ندیم افضل چن نے بتایا کہ انہیں اس سے پہلے لگتا تھا کہ شاید آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہاتھ ملانے پر کوئی زلزلہ آ جاتا ہے مگر فیض حمید سے ہاتھ ملانے پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے سابق رکنِ قومی اسمبلی نے انکشاف کیا کہ عمران خان آخری وقت تک جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن آفر کرتے رہے۔
originally published here
پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شمولیت کے فیصلہ کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایک سال کے اندر ہی انہیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ فیصلہ ان کی غلطی تھی جو کہ حلقہ کی سیاست دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان کو بطور لیڈر جوائن کیا تھا مگر ان کے قریب آ کر ان کے قول و فعل کے تضادات سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کے انتخاب میں عثمان بزدار عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی تھے۔
ندیم افضل چن نے انکشاف کیا کہ حکومتی اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا مگر پھر عمران خان کو کہیں اور سے ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ موصول ہوا۔ عمران خان کی گرفتاری کے متعلق انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی بنیاد پر قائم کیے گئے کسی مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تو عمران خان کو ہی فائدہ ہو گا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہیں بینظیر بھٹو کے ساتھ براہِ راست کام کرنے کا موقع کم ہی ملا، زیادہ تر رابطہ ٹیلی فون یا خط و کتابت کے ذریعہ ہوتا تھا البتہ بینظیر بھٹو اور ذوالفقار بھٹو کے متعلق سنا اور دیکھا کہ ان کی حکومت میں سب کو محسوس ہوتا تھا کہ یہ عوامی دور ہے۔ گورننس کے مسائل ضرور ہیں تاہم پیپلز پارٹی کو آئین، قانون اور انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات کا سہرا ضرور جاتا ہے۔
“اگلا وزیراعظم کون ہو گا” کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے لہذا بلاول بھٹو زرداری کو اگلا وزیراعظم دیکھنا ان کی خواہش ہے۔
عدلیہ بحالی کی تحریک کے متعلق سابق معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگوں نے اس تحریک میں ماریں کھائی ہیں، ہمیں اس وقت صدر آصف زرداری نے کہا کہ یہ بندہ سیاسی عزائم رکھتا ہے اور عدلیہ سمیت پورے سسٹم کو خراب کرے گا، حکومتی اراکینِ اسمبلی کی اکثریت عدلیہ کو بحال کرنے پر زور دیتی تھی لیکن وقت نے آصف زرداری کا موقف درست ثابت کیا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صفایا کے متعلق سوال پر ندیم افضل چن نے کہا کہ 2008 میں مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں حکومت بنانے دینا سب سے بڑی غلطی تھی، ہمیں قاف لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب میں حکومت بنانا چاہیے تھی مگر میثاقِ جمہوریت کے تحت پرویز مشرف کو نکالنے کیلئے مسلم لیگ نواز کو حکومت بنانے دی اور 6 ماہ بعد مسلم لیگ نواز عدلیہ بحالی کے معاملہ پر وفاقی حکومت سے الگ ہو گئی، بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے جنرل کیانی کا ہاتھ تھا۔
موروثی سیاست کے متعلق انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں کنٹرولڈ جمہوریت ہے، الیکشن کمیشن کے قوانین اور پارٹی آئین ہمارے عملی اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے بتایا کہ تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد انہیں مسلم لیگ نواز میں شمولیت کی آفر ہوئی، مسلم لیگ نواز کی ہوا چل رہی تھی لیکن موقع پرستی کی بجائے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس ہارنے والا ٹکٹ ہے مگر میں جس طرح کی سیاست کرنا چاہتا ہوں وہ پیپلز پارٹی میں ہی ممکن ہے۔
مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر مریم نواز شریف کے متعلق انہوں نے کہا کہ مسلم لیگی ووٹرز کا نواز شریف سے مریم نواز کی طرف منتقل ہونا خوش آئند ہے مگر انہیں اپنی طرز سیاست میں عوامی ٹچ دینا ہو گا۔
انہوں نے پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 300 سرمایہ دار ایسے ہیں جن کی اپنی کوئی جماعت یا فرقہ نہیں مگر وہ ہر جماعت کی آنکھ کا تارا ہیں اور ہر پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوامی حمایت کے حصول کیلئے سرمایہ داروں کو پالیسی میکنگ سے نکالنا ہو گا، سیاست دانوں کو کسی دوسرے طبقہ بالخصوص عدلیہ کی طرف دیکھنے کی بجائے پارلیمان میں بیٹھ کر مسائل حل کرنا ہوں گے۔ الیکٹیبلز کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ہو گا۔
کورونا وبا کے دوران آڈیو وائرل ہونے کے متعلق ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ میری عمران خان سے ون آن ون میٹنگ تھی اور میں چاہتا تھا کہ اس کا کوئی گواہ بھی ہو، جہانگیر ترین سے تعلقات اچھے تھے سو میں نے زلفی بخاری کو ساتھ رہنے کا کہا، عمران خان کو اس ملاقات میں جو کچھ کہا وہ ان کیلئے سخت باتیں تھیں۔ ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو استعفیٰ پیش کیا اور ان سے کہا کہ وزیراعظم آفس، بیوروکریسی اور انٹیلی جنس بیورو مل کر آپ کی سیاسی قیادت کو بدنام کر رہے ہیں، ان کے ٹیلی فون ٹیپ ہوتے ہیں اور انہیں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان معاملات کا علم اعظم خان کو ہوا جس کا اس وقت کے ڈی جی آئی بی کے ساتھ گٹھ جوڑ تھا اور یوں کچھ دن بعد مجھے نقصان پہنچانے کیلئے میرا واٹس ایپ میسج وائرل کر دیا گیا، اگلے کابینہ اجلاس میں عمران خان ناراض بھی ہوئے کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا جس پر جواب دیا کہ یہ میرا پرسنل میسج تھا اور اس پر انکوائری کروائیں لیکن انکوائری نہیں کروائی گئی۔
اینٹی اسٹیبلشمنٹ طبقہ سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ رہی ہے۔ پہلے یہ طبقہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا، پھر “ووٹ کو عزت دو” نعرہ لگا تو لوگ نواز شریف کی طرف چل پڑا مگر اب یہ طبقہ عمران خان کے اقتدار سے نکلنے پر ان کے ساتھ ہو گیا ہے۔