برطانوی جریدے “دی ٹیلی گراف” میں 21 اکتوبر 2007 کو شائع ہونے والی عمران خان کی تحریر کے مطابق بینظیر بھٹو اپنی وطن واپسی کے موقع پر کراچی میں کارساز کے مقام پر ہونے والوں بم دھماکوں کی خود ذمہ دار تھیں اور یہ کہ سانحہ کارساز کا سب کو انتظار تھا کیونکہ یہ ناگزیر تھا۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بینظیر بھٹو نے 8 سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپسی سے قبل اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی تھی اور اس ڈیل میں برطانیہ اور امریکہ نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
عمران خان کے مطابق بینظیر بھٹو نے پرویز مشرف کا ساتھ دے کر اپنے قتل کیلئے راہیں ہموار کر دی ہیں کیونکہ پرویز مشرف کو پاکستان کے اندر امریکی پٹھو سمجھا جاتا ہے اور لوگ امریکہ کی “وار اینڈ ٹیرر” کو اسلام کے خلاف جنگ گردانتے ہیں جبکہ پاکستان میں بنیاد پرستوں کی کمی نہیں ہے اور خودکش بمباروں کی بہت بڑی تعداد پاکستان بالخصوص سرحدی علاقوں میں موجود ہے۔
دی ٹیلی گراف میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں عمران خان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف ناکامی کے قریب تھا اور سٹیٹ ایمرجنسی نافذ کرنے والا تھا مگر جب پرویز مشرف کے پاس کوئی راستہ باقی نہ رہا تو بینظیر بھٹو اس کو بچانے کیلئے واپس آ گئیں، سب جانتے تھے کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ایک جمِ غفیر امڈ آئے گا مگر اس کی مانیٹرنگ ممکن نہیں تھی اور کوئی یہ گارنٹی نہیں دے سکتا تھا کہ وہاں خودکش بمبار موجود نہیں ہوں گے۔
عمران خان نے لکھا کہ بینظیر بھٹو نے ایک آمر کا ساتھ دے کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ بینظیر بھٹو ایک آمر کا ساتھ دے کر کارساز بم دھماکوں میں مرنے والے 130 افراد کے متعلق کیسے یہ کہہ سکتی ہیں کہ انہوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دی۔
چیئرمین تحریکِ انصاف نے مزید لکھا کہ وار اینڈ ٹیرر قبائلی سرحدی علاقوں میں ہر کسی کو گوریلا بنا رہی ہے اور مختلف گروپس امریکہ کے خلاف متحد ہو رہے ہیں جبکہ القاعدہ اس اتحاد کا ایک چھوٹا سا حصہ ہو گی، بینظیر بھٹو نے اس لحاظ سے بھی اپنے دشمنوں میں اضافہ کیا ہے، سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں میں سے وہ اکیلی ہیں جو پرویز مشرف کی جانب سے فوجی آپریشن کے ذریعہ لال مسجد میں خواتین اور بچوں کے قتلِ عام کی حمایت کر چکی ہیں، بینظیر بھٹو اس سے قبل بھی پرویز مشرف کی جانب سے نہتے شہریوں پر حملوں کی حمایت کر چکی ہیں جن میں ہونے والی اموات کو پرویز مشرف “کولیٹرل ڈیمیج” قرار دے چکے ہیں۔
دی ٹیلی گراف میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق عمران خان کا مؤقف تھا کہ بینظیر بھٹو نے سرحدی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے دو یا تین سو حامیوں کے قتل کیلئے پرویز مشرف کی جانب سے نیٹو افواج کے داخلہ کے فیصلہ کی بھی حمایت کی حالانکہ اس منصوبہ نے دہشتگردوں کیلئے حامیوں کی تعداد میں دس لاکھ افراد کا مزید اضافہ کیا۔
عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے وقت سے بینظیر بھٹو کو جانتے ہیں مگر پھر سیاسی اختلافات کی وجہ سے دور ہو گئے، انہوں نے بینظیر بھٹو کو وطن واپس جانے سے روکا اور بتایا کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں مگر عمران خان کے مطابق بینظیر بھٹو نے شاید ان کی بات پر کان نہیں دھرے۔
چیئرمین تحریکِ انصاف نے لکھا کہ وہ سرحدی علاقوں میں انتخابی مہم چلانے کیلئے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے کیونکہ لوگ انہیں امریکی پٹھو نہیں سمجھتے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان میں حالیہ خودکش دھماکوں کے حوالہ سے برطانیہ کے ہاتھ صاف نہیں ہیں کیونکہ برطانیہ نے پرویز مشرف کی حمایت یافتہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رکھی ہے جو کہ 15 برس سے لندن میں مقیم ہے اور وہاں بیٹھ کر کراچی کو کنٹرول کر رہا ہے، الطاف حسین وہ غنڈہ ہے جس نے بینظیر بھٹو کو وطن واپسی کیلئے قائل کیا اور یقین دہانی کروائی کہ وہ بینظیر بھٹو کی حفاظت کرے گا۔
عمران خان کے مطابق قبائلی ایک انتقامی کلچر رکھتے ہیں جس میں ایک شخص مارا جاتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ انتقام کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے، وار اینڈ ٹیرر نے نائن الیون کے ذمہ داروں کو فائدہ پہنچایا ہے جبکہ پرویز مشرف اور اس کی حلیف بینظیر بھٹو امریکی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔