اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کے پانامہ کیس فیصلہ کے بعد جب اسکے متعلق پٹیشنز اسلام آباد ہائیکورٹ آنا شروع ہوئیں تو اچانک مجھے ڈویژن بنچ سے ہٹا دیا گیا حالانکہ میں سینئیر ترین جج تھا اس پر چیف جسٹس سے پوچھا کہ آپ نے تو مجھے پوچھا ہی نہیں تواس پرمجھے جواب ملا آپ اسکو چھوڑیں اس پر بات نہ کریں۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہی۔
شوکت صدیقی نے مزید کہا کہ اس وقت جنرل فیض حمید جوڈی جی سی تھے میرے پاس آئے اورمجھ سے پوچھا کہ اگر میاں نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز کا کیس اسلام آباد ہائیکورٹ آپکے پاس آئے گا تو آپ کیا کرینگے میں نے کہا ابھی تو وہاں فیصلہ نہیں ہوا تو جنرل فیض نے کہا کہ اسے چھوڑیں سزا تو ہونی ہی ہے ہم آپ سے ملکی مفاد میں فیصلہ چاہتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مجھے ڈویژن بنچ سے کیوں ہٹوایا تو جواب ملا ہم نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے بات کی ہے انہوں نے آپکے چیف جسٹس سے بات کرلی ہوئی ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید نے مجھے کہا کہ جب نواز شریف کا کیس آپکے پاس آئے توآپ نے انہیں سزا دینی ہے جس پر میں نے انہیں کہا کہ اگر سزا بنتی ہوگی تو ضرور دونگا لیکن اگر سزا نہیں بنتی ہوگی تو کسی صورت انکو سزا نہیں دے سکتا۔
شوکت صدیقی نے بتایا کہ اس موقع پر جنرل فیض نے تاریخی جملہ کہا کہ اسطرح تو ہماری دو برس کی محنت ضائع ہوجائیگی۔ جنرل فیض نے مزید کہا کہ ایسا کرنے پر آپکو وقت سے پہلے چیف جسٹس بنا دیا جائیگا اور آپکے موجودہ چیف جسٹس کو میڈیکل گراونڈز کی بنیاد پرچھٹی پر بھیج دیا جائیگا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کہتے ہیں کہ میں نے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے تین مرتبہ رابطہ کیا اور ملنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ وہ شاید مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔ اس بارے میں جسٹس شوکت صدیقی نے بتایا کہ جب جب میں نے پرویز مشرف کی ضمانت مسترد کی اس سے اگلے دن ہماری لا کانفرنس تھی تو ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے پوچھا کہ یہ شوکت صدیقی کون ہے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ ہیں وہ تو مجھے کہا اوئے آرام سے چلو کیوں سب کی نوکریوں کے پیچھے پڑ گئے ہو جس پر میں نے کہا کہ س اپنی نوکریوں کی بجائے کبھی پاکستان کو بھی دیکھ لیں جس پر انہوں نے بڑا برا منایا۔ اسی دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مجھے دیکھ کر کہا کہ صدیقی تم نے بڑا فیصلہ دیا ہے ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں اس پر بھی ثاقب نثار کو اچھا نہیں لگا اور شاید انہوں نے اس وقت میرے نام پر کاٹا یا لال دائرہ لگا دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پرجسٹس شوکت صدیقی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں 4/3 والا بڑا سیریس معاملہ ہے اور یہی اصل فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے تریسٹھ اے اے کے تحت آئین کو ازسرنو تحریر کرکے دیا جانیوالا فیصلے کو بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بلکل غلط قراردیا۔