سینئر قانون دان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر نے خاتون سیاستدان اعظمیٰ بخاری کے یوٹیوب پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن مجھے انگیج کرنا چاہتی تھی اور یہ وقت کی ضرورت بھی تھی کیونکہ الیکشن کمیشن تذبذب کا شکار تھی جبکہ میں دو ٹوک مؤقف بیان کرنے والا شخص ہوں لہذا میں نے وزیراعظم کے خصوصی معاون کا عہدہ چھوڑ کر الیکشن کمیشن کیلئے وکالت کی ذمہ داری قبول کی۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی کیلئے آرٹیکل تریسٹھ (اے) کی غلط تشریح کر کے ہم خیال بینچ نے آئین کو از سر نو تحریر کیا۔ میں نے اس کیس میں نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کی نمائندگی کرتے ہوئے اعجاز الاحسن سے کہا کہ آپ اسپیکر کو بلانے کا اختیار نہیں رکھتے اور اسمبلی کی اندرونی کارروائی میں بھی مداخلت نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس سمجھ گئے کہ عرفان قادر کی بات درست ہے جبکہ اعجاز الاحسن کے پاس اس بارے میں آئینی معلومات نہیں تھیں لہذا چیف جسٹس نے اعجاز الاحسن کو خاموش کروا دیا۔ چیف جسٹس میرا مؤقف سنتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار ہوئے اور رش کو وجہ بتا کر عدالتی کاروائی کو دوسرے کمرے میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، دوسرے کمرے کے تمام دروازے بند تھے اور اس قدر گرمی تھی کہ محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم کسی تندور میں بند تھے۔ عرفان قادر نے انکشاف کیا کہ وہ وہاں سے نکل کر رجسٹرار کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں شاہ محمود قریشی، فواد چودھری اور اسد عمر سمیت صرف تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگ اس طرح موجود تھے جیسے یہ ان کا سیاسی دفتر ہو حالانکہ ان کی وہاں موجودگی آئین کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس کیس میں سمجھ چکا تھا کہ یہاں انصاف کی توقع رکھنا دیوار سے ٹکرانے کے مترادف ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ہمارے بائیکاٹ کے باوجود وہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ایسی پروسیڈنگز میں کیسے شامل رہے۔
پنجاب اسمبلی کے متعلق کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک غیر آئینی فیصلہ کے تحت حمزہ شہباز شریف کی حکومت ختم کی گئی، آئین سے انحراف کیا گیا، اس جرم کے بعد سپریم کورٹ کا احتساب ضرور ہونا چاہیے اور ان ججز کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ موجودہ چیف جسٹس خود کو مظلوم ظاہر کرنے کیلئے غیر متعلقہ ریمارکس دیتے رہتے ہیں۔
سینئر قانون دان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کو اپنی غلطی تسلیم کر لینی چاہیے کیونکہ ان کا فیصلہ کسی نے نہیں ماننا، چیف جسٹس کے پاس یہی راستہ ہے کہ وہ فل کورٹ تشکیل دیں مگر وہ ایک سیاسی جماعت کی جانبداری پر بضد ہیں اور ان کی ساس کی آڈیو لیک سے بھی بہت کچھ واضح ہو چکا ہے۔ میں نے چیف جسٹس سے کہا کہ آپ ٹویٹر پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں لہذا اب آپ کو اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ الیکشن کی تاریخ دینا یا شیڈول جاری کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی نے بتایا کہ جب افتخار چودھری چیف جسٹس تھے اور بھاری بھرکم شخصیت بن چکے تھے تو جوڈیشل کمیشن کی پہلی میٹنگ سے خطاب کے دوران میں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہم سب برابری کی بنیاد پر رکن ہیں، چیف جسٹس ریگولیٹ کریں مگر وہ ہمارے فیصلے نہیں کریں گے۔ میرے عمر عطا بندیال سے پرانے تعلقات ہیں، میں بار بار انہیں نیوٹرل ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا، میں نے سو مختلف ٹیسٹ ایپلائی کر کے عمر عطا بندیال کو شک کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کی مگر ہر ٹیسٹ ناکام ہوا۔ میرا اب بھی عمر عطا بندیال کو یہی مشورہ ہے کہ وہ خود کو ان معاملات سے الگ کر لیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ثاقب نثار کے کچھ سیاسی مقاصد ادھورے رہ گئے تھے جنہیں پورا کرنے کیلئے وہ بندیال صاحب کے پیچھے چھپ کر دوبارہ طلوع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں ثاقب نثار کے پردادا اور دادا کے متعلق جانتا ہوں اور ان کے والد کو بھی دیکھ چکا ہوں، یہ شریف اور اچھے لوگ تھے مگر ثاقب نثار نے چیف جسٹس بن کر عجیب و غریب کام کیے اور ذہنی طور پر وہ آپے سے باہر ہو چکے تھے۔ ثاقب سیاسی نوعیت کے کیسز میں خود کو بہت خراب کیا۔ موجودہ چیف جسٹس بھی پولیٹیکل انجینئرنگ میں ملوث ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں الیکشن کمیشن کی وکالت کر رہا تھا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کیسے سپر سیڈ کر سکتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ آپ الیکشن کمیشن کیلئے وکیل کا انتخاب بھی خود کر لیں۔ الیکشن کمیشن کو تین ہم خیال ججز کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے آئین و قانون کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ میں اگر الیکشن کمیشن کا سربراہ ہوتا تو ان تینوں ججز کو توہین کا نوٹس بھیجتا کہ میرے کام میں مداخلت کیوں کر رہے ہیں۔ آئین کے مطابق ایک جج ہر گز قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججز کو بلانے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو آڈیٹر جنرل آف پاکستان رپورٹ کرتا ہے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی وہی حیثیت ہے جو سپریم کورٹ کے کسی جج کی ہے۔ اگر کسی نے پبلک اکاؤنٹ میں کوئی خرد برد کیا ہو تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی متعلقہ اداروں کو قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایات جاری کر سکتی ہے، آئین کے مطابق یہ ججز بھی پبلک سرونٹس ہیں لہذا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی انہیں بلا سکتی ہے بلکہ یہ ان ججز کیلئے اپنا مؤقف بیان کرنے کا ایک موقع اور سہولت ہے ورنہ ان ججز کے خلاف پولیس، نیب اور ایف آئی اے سمیت متعلقہ ادارے متحرک ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس کوئی لامحدود پاور نہیں ہے، اگر سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس کے خلاف کوئی ریفرنس آتا ہے تو وہ خود اس کیلئے بننے والے بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔ آئین میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ اگر چیف جسٹس کے خلاف کوئی ریفرنس آئے تو وہ اس کو روک کر بیٹھ جائیں۔ آئین کے مطابق اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز کے خلاف ریفرنسز آ جائیں تو ان ریفرنسز کو بالترتیب سنا جائے گا۔
عرفان قادر نے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی جانب سے چیف جسٹس کیلئے ٹویٹر ٹرینڈز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریکِ انصاف کی جانب سے اظہارِ یک جہتی فی الوقت چیف جسٹس اور دیگر ہم خیال ججز کی ضرورت ہے کیونکہ جب ججز اپنی قانونی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں تو انہیں سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم خیال ججز اور تحریکِ انصاف کا تعلق اب مکمل طور پر بےنقاب ہو چکا ہے لہذا ان دونوں کو اب ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ آئین کے اندر چیف جسٹس کیلئے ایکسٹینشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔