اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق سینیئر جج شوکت عزیز صدیقی نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں صحافی حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کوئی درخواست نہیں آئی بلکہ اس وقت کے چیف جسٹس نے سوموٹو لیکر نوٹس لیا یکم اکتوبر کو مجھے طلب کیا اور گیارہ اکتوبر کو میڈیا سے پتہ چلا سپریم جوڈیشل کونسل نے مجھے نکالنے کی سفارش کی ہے اور صرف چالیس منٹ میں مجھے نکالنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔
جسٹس شوکت صیقی نے کہا کہ اسوقت چیف جسٹس ثاقب نثار اور جنرل فیض حمید بہت ایکٹو تھے۔ جب میں نے فیض حمید کا نام لیا تو اسوقت میرے پاس سارے ثبوت موجود تھے اور میں نے اسوقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو کہا کہ اس پر کمیشن بنایا جائے اور میرے الزامت غلط ثابت ہوتے ہیں تو مجھے بے شک لٹکا دیا جائے۔
اس موقع پر شوکت صدیقی نے کہا کہ اس وقت کی سپریم کورٹ کے سینئر ججز اور اس وقت کی فوج کی لیڈرشپ آپس میں ایک تھے اور مل کر اپنے پراجیکٹ کو چلا رہے تھے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اپنے کیس کی شنوائی کیلئے درجنوں خطوط لکھے کہ میرے کیس کا فیصلہ جلد کردیا جائے لیکن آج تک شنوائی نہیں ہوئی۔ میں اب اللہ تعالی کی طرف سےہی انصاف کا طلبگار ہوں۔
سابق جج نے مزید کہا کہ الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے جسکی آرٹیکل 218/3 کے تحت صاف شفاف الیکشن کروانے ذمہ داری ہے اور اگر وہ مقررہ مدت میں الیکشن کروانے کیلئے تیار نہیں تو پھر نوے روز میں کیسے الیکشن ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک نئے الیکشن نہیں ہوجاتے تب تک نگران حکومتیں کام کرتی رہینگی۔