“عارف علوی: خان صاحب! درخواست یہ تھی کہ پی ٹی وی کے اندر گھس کر نشریات بھی بند ہو گئی ہیں۔
عمران خان: اچھا ہے ٹھیک ہے۔
اس پر پریشر ڈالتے رہیں ورنہ یہ ریزائن نہیں کرے گا۔
یہ کل جا رہا ہے جوائنٹ سیشن میں؛ میں چاہتا ہوں یہ اس سے پہلے ریزائن کرے۔”
یہ الفاظ اس وقت کے ہیں جب ریاستی ادارے پی ٹی آئی کو پاکستانی سیاست میں بھرپور طریقے سے انسٹال کرنے اور مسندِ اقتدار تک پہنچانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
عمران خان کی ہدایات پر پی ٹی آئی کارکن ہر طرف انتشار اور فساد پھیلانے میں مصروف تھے۔
کراچی بند کر دوں گا، ملتان بند کر دوں گا، لاہور بند کر دوں گا اور سارا پاکستان بند کر دوں گا کے نعروں کی گونج تھی۔
آئی جی اسلام آباد تم سن لو تمہیں چھوڑوں گا نہیں، ایمپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی، ان کی شلواریں گیلی ہو گئی ہیں، جلا دو، توڑ دو کی للکاریں تھیں۔
انہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، سول نافرمانی کی تحریک شروع کروں گا، بل جلا دو، ٹول ٹیکس نہ دو، سرکاری اہلکار ان کے احکامات نہ مانیں کے اعلانات دہرائے جاتے تھے اور بہت کچھ ایسا جس کی اجازت کوئی مہذب معاشرہ نہیں دیتا لیکن پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ عمران خان کو ایسا کہنے اور کرنے کی اجازت تھی۔
میڈیا پر 24/7دھرنے کی لائیو کوریج کی جاتی تھی اور عمران خان کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر دکھایا جاتا تھا جس کے اقتدار پر آنے سے کایا پلٹ جائے گی۔
دانشور، اہلِ علم صحافی اور تھنک ٹینک سمجھے جانے والے لاتعداد مشہور و معروف افراد ہر روز عمران خان کو ملک کی سیاسی قیادت اور اس وقت کے حکمرانوں کے مقابلے میں ایک مسیحا کے طور پر پیش کرتے تھے۔
بہرحال چند ایسے بھی تھے جو عمران خان کے بیانات اور رویے میں اس وقت بھی فاشزم نکال لاتے تھے اور جو ریاستی ادارے عمران خان کی پشت پناہی کر رہے تھے انہیں بتاتے تھے کہ آپ جس گھوڑے پر انویسٹمنٹ کر رہے ہیں وہ سرکس کا گھوڑا تو ہو سکتا ہے لیکن اگر آپ کو کسی تبدیلی کی توقع ہے تو ایسا ممکن نہیں۔
بہرحال 2018 الیکشنز میں الیکٹیبلز مینج کر کے، پولنگ بوتھس فکس کر کے اور آر ٹی ایس بٹھا کر عمران خان کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا گیا۔
اپنے اقتدار کے پونے چار سال میں عمران خان نے ایک دن بھی خود کو ملک کا وزیراعظم ثابت نہیں کیا بلکہ عمران خان کے ہر بیان، ہر عمل اور ہر رویے سے یہی ثابت ہوتا رہا کہ وہ تحریکِ انصاف کا وزیراعظم ہے۔ دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار پر مسلط ہونے والے عمران خان نے ہر موقع پر ثابت کیا کہ ایک نہیں دو پاکستان ہیں۔
بنی گالا گھر اور حیات ٹاور ریگولائز کروا لیا گیا جبکہ غریبوں کی بستی نیسلے ٹاور اور تجوری ہائٹس مسمار ہوئے؛ ملک بھر میں مخالفین پر سیاسی بنیادوں پر نیب کیسز بنائے گئے جبکہ کے پی کے میں احتساب عدالت کو تالا لگا دیا؛ علیمہ خان کو معمولی جرمانے کے عوض معافی دے دی گئی جبکہ مریم کے پاس کوئی عوامی عہدہ نہ ہونے کے باوجود نیب کیس بنایا گیا؛ ادویات سکینڈل، راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل، بی آر ٹی پشاور سکینڈل، پیٹرول، آٹا، چینی اور لاتعداد کرپشن سکینڈلز کو پروٹیکشن دی گئی جبکہ رانا ثناء اللہ پر ہیروئین کا جھوٹا کیس بنایا گیا۔
انتظامی و حکومتی امور میں نااہلی و نالائقی عروج پر رہی۔ ڈالر بڑھنے کا پتہ ٹی وی دیکھ کر چلتا تھا اور موصوف وزیراعظم ہیں اور ذمہ داری ان کی ہے یہ بشریٰ بی بی بتاتی تھیں۔ معیشت کی ترقی کے لئے انڈوں، کٹوں، مرغیوں اور وچھوں کے منصوبے تھے اور قرض اتارنے کے لیے زیتون کی کاشت، بھنگ کشید کرنے کے کارخانوں اور شہد کی مکھیوں کی افزائش سے مدد لینے کا ارادہ بنا۔ پناہ گاہوں، لنگر خانوں اور ریڑھیوں کی مدد سے عوام کا معیارِ زندگی بہتر کرنے کے ارادے ظاہر ہوئے۔
بھارت نے کشمیر ہڑپ لیا تو اسے آزاد کروانے کی خواہش میں ہر جمعہ کی دوپہر آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہونے کا منصوبہ دیا اور ساتھ ہی اسمبلی کے فلور پر ہاتھ نچاتے ہوئے کہہ دیا کہ “اب کیا کروں کیا حملہ کر دوں؟” سی پیک منصوبے کی رفتار سست کر کے چین کو ناراض کیا اور دوست ملک سعودی عرب کے سفیر کو گالیاں دے کر سفارتی آداب کی خلاف ورزی کی۔
پونے چار سال کے اقتدار میں سوائے نفرت انگیز تقاریر، مخالفین کے خلاف سازشوں، ذاتی نمود نمائش اور اپنی خود ستائشی کے سوا ڈھونڈے سے بھی کوئی مثبت کام نہیں ملتا۔
سیم پیج کی چکا چوند میں اقتدار پر مسلط ہونے والے عمران خان کی اپنی نالائقی و نااہلی سے جب اقتدار کی تنابیں ہاتھ سے پھسلنے لگیں تو جاتے جاتے امریکی سائفر سازش کہانی، میر جعفر میر صادق کے الزامات اور آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ توڑ کر ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
گزشتہ ایک سال سے عمران خان کی ہر تقریر فساد، فتنے اور انتشار کی دعوت دیتی ہے اور اس انتشار اور فساد کا ایک مظاہرہ ہم کچھ عرصہ پہلے ان پولیس اہلکاروں کی زمان پارک آمد کے دوران کر چکے ہیں۔
پولیس کی آمد پر زمان پارک میں چھپے فسادیوں نے پولیس پر پیٹرول بموں، لاٹھیوں اور پتھروں سے وار کیا۔
جس کا ثبوت یاسمین راشد اور عارف علوی کی ایک آڈیو لیک سے بھی ملتا ہے:
“یاسمین راشد: سر! یہاں صورتحال بہت خراب ہے۔
پیٹرول بمب پھینکنا شروع کر دیا ہے لوگوں نے۔
ہمارے ورکرز نے۔
اس سے پہلے کہ خون خرابہ ہو میرے خیال میں آپ کو بات کرنے کی ضرورت ہے۔”
گزشتہ روز جب بالآخر القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا تو زمان پارک کے تربیت یافتہ افراد نے پورے ملک میں جو آگ بھڑکائی اس نے ان تمام دانشوروں، تجزیہ نگاروں، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کو سچا ثابت کر دیا جو روزِ اول سے ریاستی اداروں کو سمجھا رہے تھے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ عمران خان کا فین کلب ہے جو اب کلٹ کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ پی ٹی آئی اور عمران خان اپنی ابتدا سے انتہا تک فاشسٹ ہے اور اگر یقین نہیں آتا تو تحریر کے آغاز میں موجود عمران خان اور عارف علوی کی گفتگو پڑھیں اور پھر یاسمین راشد اور عارف علوی کی گفتگو پڑھیں۔
انہیں ملک اور ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی سے کوئی غرض نہیں۔ ان کے نزدیک اگر عمران خان نہیں تو بےشک ملک بھی نہ ہو؛ اگر عمران خان نہیں تو بےشک ہر چیز جلا دو؛ اگر عمران خان نہیں تو ملک میں خانہ جنگی ہو جائے کوئی مسئلہ نہیں اور اگر عمران خان نہیں تو ملک میں کسی کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور یہ میں نہیں کہہ رہی بلکہ پی ٹی آئی قیادت کی آڈیو لیکس اور دو دن سے جاری جلاؤ گھیراؤ سے سامنے آ رہا ہے۔
عمران خان کے تیار کردہ کلٹ کے نزدیک عمران خان ولی اللہ ہے، نبی/پیغمبر کے برابر ہے(نعوذبااللہ) اور حق پرست ہے۔ عمران خان کے لیے جان لینا جائز ہے اور جان دینا شہادت ہے۔
یہ بھی میں نہیں کہہ رہی بلکہ پی ٹی آئی ورکرز کی ویڈیوز سے پتہ چل رہا ہے۔ عمران خان تو اب نیب کسٹڈی میں ہے لیکن اس کے سکھائے ہوئے ہزاروں ورکرز سڑکوں پر ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ ریاست انہیں کیسے کنٹرول کرتی ہے کہ کم سے کم جانی نقصان ہو۔ البتہ پی ٹی آئی اور عمران خان پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک سبق ہے کہ سرکار! اپنے آئینی دائرہ کار میں رہیں اور اس کام میں ہاتھ نہ ڈالیں جس کی آئین آپ کو اجازت نہیں دیتا کیونکہ سیانے کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے؛ اور کرے توٹھینگا باجے۔