spot_img

Columns

Columns

News

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا

پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 10 روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں فی لیٹر 13 روپے 6 پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 12 روپے 12 پیسے جبکہ کیروسین آئل کی قیمت میں11 روپے 15 پیسے کمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

حکومتی مجوزہ آئینی ترامیم کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں

ذرائع کے مطابق آئین کی متعدد شقوں میں ترمیم کی تجاویز زیر غور ہیں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ججز کے پینل سے کرنا، ہائیکورٹ کے ججز کا دیگر صوبوں میں تبادلہ، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ، منحرف اراکین کے ووٹ کے حوالے سے اصلاحات، اور آئینی عدالت میں اپیل کے نئے نظام کی تجویز شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کی درخواست تاخیری حربہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے سنگیں نتائج ہوں گے۔ سپریم کورٹ

الیکشن کمیشن کی جانب سے وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا تو اسکے سنگین نتائج ہوں گے، واضح معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش مسترد کی جاتی ہے۔

عمران خان نے کل اداروں پر جو حملہ کیا، اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے، بلاول بھٹو زرداری

عمران خان نے اپنی سیاست چمکانے کیلئے ہر ادارے پر حملہ کیا، قیدی نمبر 804 نے کل آرمی چیف اور چیف جسٹس پر جو حملہ کیا اسکے قانونی نتائج بھگتنا ہونگے، انکے فارم 45 فارم 47 پراپیگنڈا سے متعلق بڑی کہانی سامنے آنیوالی ہے، یہ عوام کو منہ نہ دکھا سکیں گے۔

Donald Trump: No more debates with Kamala Harris

VIRGINIA (The Thursday Times) — Republican nominee Donald Trump announced...
Opinionعدالت ہے یا عمران خان کا ڈیرہ؟
spot_img

عدالت ہے یا عمران خان کا ڈیرہ؟

ان فیصلوں سے ریاست کی رٹ اور قانون کی گرفت کمزور ہوئی ہے جبکہ عدالتی وقار بھی مجروح ہوا ہے اور پولیس و دیگر اداروں کی بھی توہین کی گئی ہے۔

A.M. Farooqi
A.M. Farooqi
A.M. Farooqi is a Staff Reporter for The Thursday Times.
spot_img

اسلام آباد ہائی کورٹ 12 مئی 2023 کو کسی عدالت کی بجائے عمران خان کا ذاتی ڈیرہ لگ رہا تھا جہاں معزز جج صاحبان منصف کی بجائے عمران خان کے خاندانی کمی کمین یا مُزارِع کا کردار ادا کر رہے تھے جبکہ عمران خان کسی مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ کی طرح اپنی تمام خواہشات پر عملدرآمد ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔

یہاں عمران خان کے وکلاء کسی مقدمہ میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کرتے تھے اور وہاں فوری طور پر عمران خان کے من پسند جج یا ججز کا بینچ تشکیل دے دیا جاتا، اگلے چند لمحات میں سماعت شروع ہونے کی خبر موصول ہوتی اور پھر پلک جھپکتے ہی عمران خان کیلئے حفاظتی ضمانت کا فیصلہ سنا دیا جاتا تھا۔

حیران کن طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کی جانب سے ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے یہ بھی فرمان جاری کیا کہ 9 مئی کے بعد درج ہونے والے کسی بھی مقدمہ میں عمران خان کو 17 مئی تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا، پھر یہ فیصلہ سنایا گیا کہ لاہور میں درج چند مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی گئی اور اس سب سے بڑھ کر یہ حکم جاری کیا گیا کہ سوموار کی صبح تک پورے ملک میں درج مقدمات میں سے کسی بھی کیس کی بنیاد پر عمران خان کو گرفتار نہ کیا جائے۔ مزید برآں، یہ حکم بھی جاری کیا گیا کہ تھری ایم پی او کے تحت بھی عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا یعنی ریاست نقص امن کے تحت یا افراتفری و دہشتگردی کے پیشِ نظر بھی عمران خان کو حراست میں نہیں لے سکتی۔

یہ کہاں کا قانون ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ریاست کو پورے ملک میں درج مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری سے روک دے؟ جو مقدمات اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہیں، ان میں ضمانت منظور ہونا تو کسی حد تک قابلِ وضاحت ہو سکتا ہے مگر جو مقدمات صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی کسی عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور ابھی تک ان پر فیصلہ بھی نہیں سنایا گیا، پھر وہ لیگل چینل کو استعمال کرتے ہوئے ابھی تک لاہور ہائی کورٹ تک بھی نہیں لائے گئے، ان کی کارروائی کے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کیسے کوئی فیصلہ جاری کر سکتا ہے؟

کیا اسلام آباد ہائی کورٹ نے پورے ملک میں عمران خان کے خلاف درج تمام مقدمات میں الزامات کی نوعیت، عدالتی کارروائی کی تفصیلات، پولیس یا متعلقہ ادارہ کی تفتیش، تحقیقات یا فائنڈنگز اور مجموعی پیش رفت کا بغور جائزہ لے لیا تھا؟ مکمل معلومات اور قانونی جائزوں کے بغیر ایسا حکم کیسے جاری کیا جا سکتا ہے؟ پھر یہ حکم بھی سنایا گیا کہ جن مقدمات کا علم نہ ہو اس میں بھی گرفتار نہ کیا جائے یعنی اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان مقدمات میں بھی گرفتاری سے روک دیا جن کے وجود کے متعلق بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔

کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ صرف ایک شخص کی خواہش کی تکمیل کیلئے دارالحکومت کا ہائی کورٹ آئین و قوانین کی دھجیاں بکھیر دے؟ ایسا تو شاید ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے سیاہ ادوارِ آمریت میں بھی نہیں ہوا ہو گا بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کی تاریخ میں شاید ہی ایسا دن دیکھنے کو ملا ہو کہ صرف ایک شخص کی خواہشات کی تکمیل کیلئے ریاست کے آئینی و قانونی نظام کو مفلوج کر دیا گیا۔ جمعہ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ یقیناً ریاست کے اندر ایک ریاست ہونے کا تاثر دے رہا تھا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس قدر دلچسپی اور لگن کے ساتھ عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کیلئے ملک بھر کی تمام عدالتوں اور اداروں پر اثر انداز ہو رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ایک ہی دن میں ایک ہی شخص نے متعدد درخواستیں دائر کیں، تمام درخواستیں اسی دن سماعت کیلئے مقرر ہوئیں، تمام درخواستوں کی سماعت کیلئے اسی دن بینچز تشکیل دیئے گئے، اسی دن ہر درخواست کی سماعت کی گئی، اسی دن فیصلے بھی سنائے گئے اور تمام فیصلے درخواست گزار کے حق میں تھے جبکہ اس عمل میں آئین و قانون کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر ہی نہیں رکھا گیا؟

ان مناظر نے ہر ذی شعور کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے کہ آخر عمران خان کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ عدالتیں اس کیلئے زرخرید باندیوں کا کردار ادا کر رہی ہیں؟ آخر ایسی کون سے عناصر ہیں جنہیں عمران خان ریاست کے آئین و قوانین سے بڑھ کر عزیز ہے؟ کیا وہ عناصر ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟ کیا اس واقعہ سے یہ تاثر مزید تقویت حاصل نہیں کرتا کہ عمران خان کو اندرونی و بیرونی دباؤ کے تحت قانون سے بالاتر قرار دے کر ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے؟ کیا اس سے یہ الزام بھی درست محسوس نہیں ہو رہا کہ عمران خان کو عالمی طاقتوں کی طرف سے کوئی پراسرار حمایت حاصل ہے؟

بہرحال 12 مئی 2023 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور اس دن اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنائے گئے فیصلوں کا کوئی آئینی یا قانونی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا اور یہ کہ عدالتی تاریخ میں ایسے احکامات کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ یہ فیصلے ناقابلِ وضاحت ہیں۔ ان فیصلوں سے ریاست کی رٹ اور قانون کی گرفت کمزور ہوئی ہے جبکہ عدالتی وقار بھی مجروح ہوا ہے اور پولیس و دیگر اداروں کی بھی توہین کی گئی ہے۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments

Read more

نواز شریف کو سی پیک بنانے کے جرم کی سزا دی گئی

نواز شریف کو ایوانِ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھرپور طریقے سے شامل تھی۔ تاریخی شواہد منصہ شہود پر ہیں کہ عمران خان کو برسرِ اقتدار لانے کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اہم کردارادا کیا۔

ثاقب نثار کے جرائم

Saqib Nisar, the former Chief Justice of Pakistan, is the "worst judge in Pakistan's history," writes Hammad Hassan.

عمران خان کا ایجنڈا

ہم یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں افراتفری انتشار پھیلے مگر عمران خان تمام حدیں کراس کر رہے ہیں۔

لوٹ کے بدھو گھر کو آ رہے ہیں

آستین میں بت چھپائے ان صاحب کو قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں نے ان کا زہر نکال کر آئینی طریقے سے حکومت سے نو دو گیارہ کیا تو یہ قوم اور اداروں کی آستین کا سانپ بن گئے اور آٹھ آٹھ آنسو روتے ہوئے ہر کسی پر تین حرف بھیجنے لگے۔

حسن نثار! جواب حاضر ہے

Hammad Hassan pens an open letter to Hassan Nisar, relaying his gripes with the controversial journalist.

#JusticeForWomen

In this essay, Reham Khan discusses the overbearing patriarchal systems which plague modern societies.
error: