واشنگٹن/لاہور—امریکی خبر رساں ادارہ “وائس آف امریکہ” کی خاتون صحافی سارہ زمان نے پاکستان میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے بذریعہ سکائپ انٹرویو لیا جبکہ عمران خان لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق عمران خان پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر پر اپنی سیاسی مشکلات کے حوالہ سے سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں مگر اب عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں آرمی چیف سے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ نے عمران خان سے 9 مئی کو احاطہ عدالت سے ان کی گرفتاری، عدالتی کارروائی، گرفتاری سے انکار کی وجوہات، تین دن تک جاری رہنے والے پرتشدد واقعات اور عمران خان کے مؤقف اور بیانیہ کے متعلق کچھ سوالات پوچھے۔
خاتون صحافی نے سوال پوچھا؛ آپ گرفتاری سے قبل یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر آپ کو کچھ ہوا تو ملک میں تشدد ہو گا اور آپ کے سپورٹرز کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے، کیا آپ اب اپنی گرفتاری پر ان پرتشدد واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیتے ہوئے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار تو کیا مگر ساتھ ہی یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ جب مجھے مارنے کی کوشش کی گئی تب ہر طرف آگ تو لگنا ہی تھی اور عمارتوں کو بھی جلایا جانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ جب مجھے فوج نے اغواء کروایا تو ایسا سخت ردعمل تو آنا ہی تھا۔
میزبان نے سوال پوچھا کہ آپ کئی بار جارحانہ زبان استعمال کر چکے ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ جب ایک لیڈر ایسی زبان استعمال کرتا ہے تو اس کے فالورز باہر نکلنا اور باہر نکل کر کچھ بھی کرنا اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں؟
عمران خان نے جواب دیا کہ یہ سچ نہیں ہے، اگر یہ سچ ہے تو انہوں نے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا، 27 برس تک انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
سارہ زمان نے استفسار کیا کہ مارچ کے وسط میں جب میری آپ سے گفتگو ہوئی تب حکام وارنٹ سمیت آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے مگر آپ کی جماعت کے کارکنان باہر پہنچے اور پولیس پر حملہ کر دیا جبکہ آپ کی جماعت کی جانب سے بھی سوشل میڈیا پر بار بار کارکنان کو وہاں پہنچنے کی ہدایات جاری کی گئیں، آپ کی جماعت آخر کیا چاہتی ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میرے حامیوں کو معلوم ہے کہ مجھے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اس کے پیچھے حکومت کا ہاتھ تھا جبکہ اس واقعہ کی تحقیقات بھی نہیں کی گئیں۔
عمران خان کے اس جواب پر خاتون جرنلسٹ نے کہا کہ آپ نے بھی تو اپنے حامیوں کو ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا، اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ جب کوئی تفتیش ہی نہیں ہوئی تو میں ثبوت کہاں سے لاؤں؟ مجھے جس پر شک ہے، اس سے تفتیش ہونی چاہیے اور وہ خود کو بےگناہ ثابت کرے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے کہا کہ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ اگر وہ وارنٹ ساتھ لے کر آئیں تو میں خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دوں گا۔
عمران خان کے اس بیان پر میزبان جرنلسٹ نے سوال اٹھایا کہ جب حکام آپ کی گرفتاری کیلئے مارچ کے وسط میں وارنٹ ہمراہ لائے تھے تو آپ نے گرفتاری کیوں پیش نہ کی؟
عمران خان نے جواب دیا کہ وہ غیر قانونی تھا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد ہمیں الیکشن کیلئے کمزور کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ جرنلسٹ نے عمران خان کو یاد دلایا کہ جب وہ حکومت میں تھے اور اس وقت کی اپوزیشن فوج پر سیاسی مداخلت کے باعث تنقید کرتی تھی تو آپ اس تنقید کو ریاست سے غداری قرار دیتے تھے جبکہ آج کل آپ خود آرمی چیف کے خلاف جارحانہ گفتگو کرتے ہیں تو کیا اب آپ کی یہ تنقید غداری نہیں ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ میں دو برس تک کیس چلتا رہا اور ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے انہیں قصوروار پایا مگر وہ اپنی سزاؤں کی وجہ سے ججز اور آرمی چیف پر الزامات عائد کرتے تھے جو کہ غلط تھا جبکہ مجھے فوج نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اغواء کروایا جو کہ آرمی چیف کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں لہذا میں نے آرمی چیف کا نام لیا۔
میزبان جرنلسٹ نے سوال اٹھایا کہ آپ کو کیوں یہ فرق نظر نہیں آ رہا کہ آپ کی تنقید جائز ہے مگر کسی دوسرے شخص کی تنقید غداری ہے؟ جس طرح آپ کے پاس کچھ وجوہات ہیں، یقیناً دوسروں کے پاس بھی کچھ وجوہات تھیں۔
عمران خان نے جواب دیا؛ ان دونوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا، نواز شریف کو سپریم کورٹ نے سزا سنائی جبکہ میرے اغواء کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ کی جانب سے پوچھا گیا آخری سوال یہ تھا کہ آپ فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تعلقات کو کیسے ٹھیک کرنے کی توقع رکھتے ہیں؟
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مجھے آرمی چیف سے کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا، وہ میرے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں جو کہ درست نہیں ہوتیں جبکہ میں کئی بار ان سے رابطے کی کوشش کر چکا ہوں، مسئلہ میری طرف سے نہیں بلکہ دوسری طرف سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں جانتا کہ آرمی چیف کے ذہن میں کیا چل رہا پے اور کیوں آرمی چیف نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ مجھے کبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔