عمران خان کی جانب سے حکمراں اتحاد کی جانب سے ریاستی اداروں میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے تحریکِ انصاف کے کارکنان کے خلاف قانونی کارروائیوں کو ہٹلر کی نازی حکومت کی طرف سے کیے گئے فروری 1933 والے اقدامات سے تشبیہ دینا شرمناک حرکت ہے، تاہم تحریکِ انصاف کے چیئرمین نے اس ٹویٹ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے ان تمام افراد کی سوچ کو چیلنج کیا ہے جن کے اذہان میں یہ سوال موجود ہے کہ کیا کسی سیاستدان کو ایڈولف ہٹلر سے تشبیہ دینا غلط ہے؟ عمران خان کی صورت میں پاپولسٹ سیاست کے اس عکس کو دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی شخص کی عوامی پہچان اور سنسنی خیز ہتھکنڈوں کو استعمال کیا گیا۔
اپنے مخالفین اشتراکیوں (کمیونسٹوں) کو کچلنے کیلئے ہٹلر نے کیسے آتِش زنی (کے ایک واقعے) کو (بطور جواز) استعمال کیا!
کچھ اسی قسم کی چال اب پاکستان میں بھی چلی جا رہی ہے۔ pic.twitter.com/7XIzitHiS0
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) May 22, 2023
تاریخ میں قوموں کیلئے سیاسی منظر نامے کی تشکیل میں پاپولسٹ سیاست ہمیشہ ایک اہم موضوع رہی ہے۔ اگرچہ ان دونوں شخصیات کے مابین موازنہ متنازع لگتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان اور ایڈولف ہٹلر، دونوں نے اپنی اپنی پاپولسٹ تحریک سے طاقت و اقتدار تک پہنچنے کا تجربہ حاصل کیا۔ عمران خان نے عوام کے اندر ایک سابق کرکٹر کی حیثیت سے وجود میں آنے والی پہچان کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مایوس طبقہ کو اصلاحی اقدامات اور بدعنوانی کے خاتمہ کا یقین دلایا، اسی طرح ایڈولف ہٹلر نے بھی جنگ عظیم اول کے باعث پیدا ہونے والی شکایات، معاشی بدحالی اور ویغسائی کے معاہدہ کی وجہ سے جرمنی کے عوام کے اندر موجود احساسِ ذلت کا فائدہ اٹھایا۔ ہثلر کے اندر موجود شعلہ بیانی کی مہارت اور قوم پرستی کے جذبات میں ڈھلنے کی قابلیت نے اس کو چانسلر کے عہدے تک پہنچا دیا، اسی طرح عمران خان کے فنِ خطابت نے بھی اشرافیہ کو متاثر کیا۔
ایڈولف ہٹلر اور عمران خان، دونوں نے اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کیلئے پاپولسٹ انداز کے ساتھ قوم پرستانہ بیان بازی کا راستہ اختیار کیا۔ عمران خان نے عام پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے انصاف اور احتساب کے نئے دور کا نعرہ لگایا، ہٹلر کی جماعت نے بھی چند گروہوں کو جرمنی کے معاشی و سماجی مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک قومیت کا نعرہ لگایا۔ دونوں شخصیات نے لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو اپنا پرجوش پیروکار بنانے کیلئے مہارت کے ساتھ اپنے بیانیہ کی ترویج کی۔
عمران خان اور ایڈولف ہٹلر، دونوں کی کرشماتی قیادت نے ان کی سیاست کے میدان میں کامیابی کیلئے راہ ہموار کی۔ ہٹلر کی سامعین کو موہ لینے والی طاقتور مہارت نے کسی فرقہ جیسے پیروکاروں کو جمع کر لیا، جرمنی کے لوگ اس کی تقاریر سے متاثر ہو کر اس کی مسحور کن شخصیت میں کھو گئے۔ عمران خان کی شخصیت نے بھی ایک فرقہ جیسے پیروکاروں کو جمع کر لیا اور روایتی پارٹی سیاست سے ہٹ کر مداحوں کا ایک ایسا مجمع اکٹھا ہوا جو عمران خان کو پاکستان کا ایک سیاسی مسیحا سمجھنے لگا، یہ ایک ایسا وفادار فرقہ ہے جو عمران خان کی منافقانہ روش، کرپشن اور دیگر جرائم کے تمام ثبوتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
عمران خان اور ہٹلر، دونوں نے اقتدار میں آ کر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے ایسے اقدامات کیے جن سے جمہوری روایات کو شدید نقصان پہنچا۔ ہٹلر نے ایک منظم طریقہ سے جمہوری اداروں کو ختم کر دیا، اپنی مطلق العنان بادشاہت قائم کرنے کیلئے اقتدار کو مضبوط کیا اور بالآخر تیسری ریخ کا قیام عمل میں آیا جس کو نازی جرمنی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح عمران خان کی حکومت نے بھی فوج اور عدلیہ کو ساتھ ملا کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور جمہوری اداروں کی آزادی کے متعلق خدشات ابھرنے لگے مگر پھر 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی نے مطلق العنانی کا یہ خواب چکنا چور کر دیا۔