لندن—برطانوی جریدہ فنانشل ٹائمز میں 28 جولائی 2022 کو پاکستانی بزنس ٹائیکون عارف نقوی اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کے متعلق ایک آرٹیکل شائع کیا گیا جس کے مطابق اپنی کامیابیوں کے عروج کے دنوں میں عارف نقوی نے کرکٹر عمران خان، سینکڑوں ساہُو کاروں، وکلاء اور سرمایہ کاروں کو برطانیہ میں ووٹن کے گاؤں آکسفورڈشائر میں شراب نوشی اور کھیل کیلئے مدعو کیا اور پھر وہاں 2010 سے 2012 تک ایک کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کروایا گیا جس سے حاصل ہونے والی آمدن کو پاکستان میں تحریکِ انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا گیا۔
ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی نے اپنی 14 ایکڑز کی زمین پر واقع ایک کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے ہر فرد کو 2000 سے 2500 پاؤنڈز تک جمع کروانے کا کہا اور انہیں بتایا گیا کہ یہ رقم ایک نامعلوم انسان دوست مقصد کے تحت استعمال کی جائے گی۔
عمران خان کو غیر قانونی فائدہ کیسے پہنچایا گیا؟
فنانشل ٹائمز کے مطابق برطانیہ میں موسم گرما کے دوران ایسے ایونٹس کا انعقاد ایک معمولی بات ہے مگر عارف نقوی کے اس ایونٹ میں غیرمعمولی بات یہ تھی کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو پاکستان میں عمران خان کی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف کے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا اور اس میں اداروں اور افراد کی جانب سے جمع کروائی گئی رقم میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ایک وزیر (جو کہ ابوظہبی کے شاہی خاندان کا حصہ بھی ہے) کے دو ملین پاونڈز بھی شامل تھے.
پاکستانی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتوں کو غیر ملکی افراد یا اداروں سے فنڈنگ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ابراج گروپ کی ای میلز اور اندرونی دستاویزات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ میں غیر ملکی افراد اور اداروں کی جانب سے کئی ملین ڈالرز بھیجے گئے جو بالآخر پاکستان میں تحریکِ انصاف تک پہنچائے گئے، ان دستاویزات میں 28 فروری سے 30 مئی 2013 تک کا احاطہ کرنے والی بینک سٹیٹمنٹ بھی شامل ہے۔
برطانوی جریدہ کے مطابق عارف نقوی کی جانب سے تحریکِ انصاف کو ملنے والی یہ رقم الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سات برس سے زائد عرصہ پر محیط تحقیقات کا حصہ بھی ہے، جنوری 2022 میں جاری کردہ الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف نے غیر ملکی افراد اور اداروں سے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی اور اس فنڈنگ سمیت کئی بینک اکاؤنٹس کو بھی چھپایا جبکہ الیکشن کمیشن کی اس رپورٹ میں ووٹن کرکٹ کا ذکر بھی موجود ہے۔
عارف نقوی نے رقوم پاکستان کیسے منتقل کیں؟
ووٹن کرکٹ کے اکاؤنٹ میں 14 مارچ 2013 کو ابراج انویسٹمنٹ مینیجمنٹ لمیٹڈ کی جانب سے 1.3 ملین ڈالرز بھیجے گئے اور اسی دن اتنی ہی رقم اس اکاؤنٹ سے پاکستان میں تحریکِ انصاف کے ایک اکاؤنٹ میں بھی وصول ہوئی۔ ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ میں متحدہ عرب امارات کے حکومتی وزیر، ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن اور پاکستان میں بینک الفلاح کے چیئرمین شیخ نہیان بن مبارک النیہان کی جانب سے بھی اپریل 2013 میں دو ملین ڈالرز کی مزید رقم بھیجی گئی جس کے 6 دن بعد عارف نقوی نے دو اقساط میں 1.2 ملین ڈالرز کی رقم تحریکِ انصاف کو بھیجی۔
فنانشل ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ ان دنوں عارف نقوی کی ای میلز میں ابراج کے سینئر ایگزیکٹو رفیق لاکھانی سے تحریکِ انصاف کو مزید 1.2 ملین ڈالرز بھیجنے کا ذکر بھی موجود ہے، رفیق لاکھانی نے عارف نقوی کو بتایا کہ شیخ کی رقم ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ میں موصول ہو گئی ہے جبکہ عارف نقوی نے جواب دیا کہ اس میں سے 1.2 ملین تحریکِ انصاف کو بھیج دو، ایک اور ای میل میں عارف نقوی نے رفیق لاکھانی کو کہا کہ کسی کو اس رقم کے متعلق نہیں بتانا اور نہ ہی یہ بتانا ہے کہ فنڈنگ کون کر رہا ہے، رفیق لاکھانی نے جواباً “ضرور سر” لکھ کر بھیجا اور پھر لکھا کہ یہ رقم تحریکِ انصاف کو منتقل کر دی جائے گی۔
عارف نقوی کے ذاتی اکاؤنٹ کے ذریعہ یہ رقم تحریکِ انصاف کو منتقل کرنے کیلئے رفیق لاکھانی نے تجویز دی کہ یہ دو حصوں میں کراچی کی کاروباری شخصیت طارق شفیع اور لاہور میں انصاف ٹرسٹ کے اکاؤنٹس میں بھیج دی جائے۔ عارف نقوی نے ایک ای میل میں “کام بگاڑ مت دینا رفیق” لکھا۔ 6 مئی 2013 کو ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ سے مجموعی طور پر 1.2 ملین ڈالرز کی رقم طارق شفیع اور انصاف ٹرسٹ کو بھیجی گئی۔ رفیق لاکھانی نے ایک ای میل کے ذریعہ عارف نقوی کو لکھا کہ یہ ٹرانسفرز تحریکِ انصاف کیلئے تھے۔ مزید برآں، عمران خان نے بھی تصدیق کی کہ طارق شفیع نے تحریکِ انصاف کو فنڈنگ فراہم کی ہے۔
برطانوی جریدہ میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق ووٹن کرکٹ اکاؤنٹ کی بینک سٹیٹمنٹ کے مطابق عارف نقوی نے تحریکِ انصاف کو 2013 میں 2.12 ملین ڈالرز کی رقم 3 اقساط میں براہ راست ٹرانسفر کی، ان میں سب سے بڑی رقم 1.3 ملین ڈالرز کی تھی جو کمپنی کی دستاویزات کے مطابق ابراج نے ٹرانسفر تو ووٹن کرکٹ کو کی تھیں لیکن اسے چارج کے الیکٹرک کی ہولڈنگ کمپنی کو کیا گیا۔
عارف نقوی کون ہے؟
باسٹھ سالہ عارف نقوی کراچی کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے، لندن سکول آف اکنامکس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1990 کی دہائی سعودی عرب اور دوبئی میں کام کرتے ہوئے گزاری اور پھر 2002 میں ابراج شروع کیا اور اس کو سرمایہ کاری کیلئے ایک پاور ہاؤس بنایا۔ دوبئی، لندن، نیو یارک، پورے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں دفاتر کے ذریعہ کمپنی نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، بارک اوباما کی امریکی انتظامیہ، برطانوی اور فرانسیسی حکومتوں اور دیگر سرمایہ کاروں سے اربوں ڈالرز اکٹھے کیے۔
عارف نقوی کی طرف سے امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری کو بھی ابراج گروپ کے ساتھ کام کرنے کی آفر کی گئی۔ عارف نقوی نے برطانیہ کے شہزادہ چارلس سے بھی ملاقات کی اور ان کی ایک خیراتی تنظیم “دی برٹش ایشین ٹرسٹ” کیلئے سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کے گلوبل کمپیکٹ کے بورڈ کے رکن بھی رہے۔ عارف نقوی کو واشنگٹن میں ایک اچھے اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اوباما انتظامیہ نے مشرقِ وسطیٰ کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے ابراج فنڈ کیلئے 150 ملین ڈالرز کا وعدہ کیا، ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ یہ شراکت اسلامی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر کرنے کے امریکی صدر کے وعدے کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کرے گی۔ کچھ لوگ انہیں پاکستان میں مستقبل کے ممکنہ سیاسی راہنما کے طور پر بھی دیکھتے تھے۔
پاکستان میں کے الیکٹرک ابراج کی واحد اور سب سے بڑی سرمایہ کاری تھی لیکن جب 2016 میں مالی مشکلات کا شکار ہوئی تو عارف نقوی نے پاور کمپنی کا کنٹرول چینی ریاست کے زیرِ انتظام شنگھائی الیکٹرک پاور کو 1.77 بلین ڈالرز میں فروخت کرنے کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی، پاکستان میں اس معاہدے کیلئے سیاسی منظوری اہم تھی اور عارف نقوی نے اس مقصد کیلئے نواز شریف اور عمران خان، دونوں کی حکومتوں کی حمایت کیلئے لابنگ کی۔ امریکی پبلک پراسیکیوٹرز کے مطابق (جنہوں نے بعد ازاں عارف نقوی پر دھوکہ دہی، چوری اور رشوت ستانی کے الزامات عائد کیے) عارف نقوی نے پاکستانی سیاستدانوں کو ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے 20 ملین ڈالرز کی پیشکش کی۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد عارف نقوی نے ان سے ملاقات کی جس کے بعد عمران خان نے کے الیکٹرک کی فروخت میں تاخیر پر متعلقہ حکام کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن یہ معاہدہ مکمل نہ ہو سکا۔
ابراج گروپ کس طرح زوال کا شکار ہوا؟
ابراج کے زوال کا آغاز 2018 میں اس وقت ہوا جب گیٹس فاؤنڈیشن سمیت سرمایہ کاروں نے کمپنی کے ان فنڈز میں فراڈ اور گھپلوں کی تحقیقات شروع کیں جن کا مقصد افریقہ اور ایشیاء میں ہسپتالوں کی خریداری اور تعمیر کرنا تھا۔ ابراج کے مطابق وہ اس وقت تقریباً 14 بلین ڈالرز کے اثاثوں کا انتظام کر رہا تھا۔ 2019 میں امریکی پراسیکیوٹرز نے عارف نقوی اور ان کے پانچ ساتھیوں پر فردِ جرم عائد کی اور بعد ازاں ابراج کے دو سابق ایگزیکٹوز نے جرم قبول بھی کر لیا۔
نقوی کو پاکستان سے واپس آنے کے بعد اپریل 2019 میں لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر گرفتار کیا گیا اور امریکی الزامات میں مجرم ثابت ہونے پر انہیں 291 سال تک قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان کا ٹیلی فون نمبر ان رابطوں کی فہرست میں شامل تھا جو عارف نقوی نے پولیس کے حوالے کیے تھے۔