اسلام آباد—سپریم کورٹ آف پاکستان میں جماعت اسلامی کی پاناما پیپرز میں شامل 436 افراد کے خلاف تحقیقات کیلئے درخواست پر سماعت ہوئی جس میں 2 رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس سردار طارق مسعود نے کی۔ جماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی گئی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے جماعت اسلامی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو 7 سالوں تک ان 436 افراد کے خلاف تحقیقات کا خیال نہیں آیا، اب یاد آیا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے؟ کیا 2017 میں آپ کا مقصد صرف ایک خاندان کے خلاف کیس چلانا تھا؟ تب کیوں نہیں کہا تھا کہ تمام افراد کے خلاف ایک ساتھ تحقیقات کی جائیں؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ تب آپ کو سپریم کورٹ کے بینچ نے بہت بڑا ریلیف دیا تھا مگر آپ نے اس بینچ کے سامنے تمام 436 افراد کے متعلق تحقیقات کا مطالبہ نہ کیا، میں کہنا نہیں چاہتا مگر مجھے یہ کچھ اور ہی معاملہ لگتا ہے، آپ عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں، آپ نے 7 سالوں کے دوران کسی ایک بھی ادارہ کو تحقیقات کیلئے درخواست نہیں کی۔
جماعتِ اسلامی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے سات سالوں کے دوران نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں سے رجوع کیوں نہیں کیا؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ سارے کام سپریم کورٹ کرے؟ تمام افراد کو نوٹس جاری کیے بغیر کارروائی کیسے کریں؟ ان 436 افراد میں کاروباری لوگ بھی شامل ہیں کیا آپ انہیں بھگانا چاہتے ہیں؟
جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں ہے، معاملہ صرف اس کو بنانے کے طریقہ کار کا ہے۔ تمام افراد کے متعلق نوٹس جاری کیے بغیر کارروائی کا حکم دینا نیچرل جسٹس کے خلاف ہے، ان تمام افراد کو سنے بغیر فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جماعت اسلامی کی درخواست پر پاناما پیپرز میں شامل 436 افراد کے خلاف تحقیقات کی درخواست میں جے آئی ٹی بنانے پر جواب طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کر دی۔