برطانیہ میں پاکستانی میڈیا کے خلاف ہونے والی کارروائی کے تقریباً 90 فیصد کیسز وہی ہیں جن پر کئی سال پہلے پیمرا نے چھوٹے چھوٹے جُرمانے عائد کیے یا پھر چند پروگرامز کُچھ دنوں کے لئے بند کیے تو پاکستان میں جیسے کوئی آسمان گر پڑا تھا، جیسے کوئی زمین پھٹ گئی تھی، آزادیِ صحافت کے پیشہ ور سوداگر روزانہ ٹی وی چینلز پر ایسے بین ڈالتے تھے کہ جیسے قیامت کا دن آج ہی ہے۔
لیکن گورا ڈنڈا دیکھ کر آج کل سانس بھی آہستہ لے رہے ہیں اور پناہ بھی برطانیہ میں، جہاں روزانہ سو جوتے بھی کھاتے ہیں اور سو پیاز بھی، پھر کروڑوں کے جُرمانے بھی بھرتے ہیں پُل پر لائن میں لگ کر
جیسا کہ مقامی کالوں کے لئے دستور تھا۔۔۔
انتظار کر رہا ہوں کہ کب پاکستان کے اینکرز، صحافی تنظیمیں، پریس کلبز اور سیاستدان پرائیویٹ پاکستانی ٹی وی چینلز کو جھوٹ پھیلانے کی پاداش میں برطانیہ میں مسلسل ہونے والے کروڑوں روپے کے جُرمانوں اور بندشوں کے خلاف آزادی کا علم بُلند کرتے ہیں، انتظار کر رہا ہوں کہ یہ ”آزادیِ جھوٹ، بُہتان“ پر حملہ کرنے والے برطانوی عہدے داروں کے خلاف کب اپنے ٹی وی چینلز سے گندی، غلیظ، بہتان تراشی اور تشدد پر اُکسانے والی پروپیگنڈا مہم چلاتے ہیں۔
انتظار کر رہا ہوں کہ کب پاکستان میں آزادیِ صحافت کے سوداگر، چیمپئن اور سمگلر و ٹیکس چور سیٹھ اپنے برطانوی ویزوں اور شہریت کے کاغذ کو آگ لگا کر ویڈیو اپلوڈ کرتے ہیں۔
کب اپنا جلوس لے کر برطانوی سفارت خانے کے اندر گھُس کر آگ لگاتے ہیں۔
کب برطانوی سفیر اور نئے نویلے کنگ چارلس کے پُتلوں کو آگ لگاتے ہیں۔
کب اُن سب پر کُفر، غداری اور بلاسفیمی کے الزامات لگاتے ہوئے لمبی لمبی ٹرانسمشن چلاتے ہیں۔
انتظار کر رہا ہوں کہ کب برطانیہ میں سیٹل ”مُحبانِ وطن پاکستانی“ پاکستانی ٹی وی چینلز اور اُن کی ”آزادی“ پر ”ظالمانہ حملے“ کرنے والے سرکاری عہدے داروں، ججوں اور اُن کے فیملی ممبرز کے خلاف غلاظت سے لتھڑی جھوٹی کیمپینز چلاتے ہیں۔
کب اُن کی عدالتوں کے باہر جلوس لے جا کر اُن کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔
انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔ کہ ایک کام جب پاکستان میں کوئی سویلین ادارہ کرتا ہے تو پیشہ ور سوداگروں کی سینہ کوبی رُکتی ہی نہیں مگر جب وہی کام بہت بڑے سکیل پر برطانیہ میں بار بار ہو رہا ہے تو سب چُپ کیوں ہیں؟
اتنی مُنافقت؟
اتنے دوہرے معیار؟
کُچھ بولو تو سہی۔۔۔ زیادہ سے زیادہ برطانیہ کا ایک فری وزٹ ہی نہیں ملے گا نا!۔