ایتھنز/کلاماتا—بحیرہ روم میں یونان کے شہر پائلوس سے کم و بیش 50 میل کے فاصلے پر غرق ہونے والی کشتی میں سینکڑوں جانوں کا ضیاع فی الحال پوری دنیا کیلئے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق کم از کم 298 پاکستانی جان کی بازی ہار گئے جن میں سے 135 افراد کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا، کشتی میں کم و بیش 400 پاکستانی سوار تھے جبکہ یونانی وزارتِ خارجہ کے مطابق زندہ بچ جانے والے 78 افراد میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یونان میں تباہ ہونے والی کشتی میں پاکستانی شہریوں کو سب سے نچلے اور خطرناک حصہ میں بھیج دیا گیا تھا جو کہ انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا، حادثہ میں زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ کچھ مخصوص ممالک کے شہریوں کو خطرناک ترین حصہ میں رہنے پر مجبور کیا گیا، ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جبکہ دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اوپر والے اس حصہ میں لایا گیا جہاں بچ جانے کے امکانات زیادہ تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق پاکستانی شہریوں کو بھی نچلے حصہ میں رکھا گیا تھا اور جب بھی انہوں نے تازہ پانی تک پہنچنے یا فرار ہونے کی کوشش کی تو عملہ کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی جبکہ کشتی کے ڈوبنے سے پہلے ہی اس میں تازہ پانی ختم ہونے کے باعث 6 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
اس حوالہ سے یونانی کوسٹ گارڈز کے کردار پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، حادثہ میں زندہ بچنے والے شامی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ یونانی پوسٹ گارڈز تین گھنٹوں تک انہیں ڈوبتا ہوا دیکھتے رہے، پھر جب باہر نکالا تو تشدد بھی کرتے رہے اور کہتے رہے کہ خاموش رہنا ہے۔ یونانی حکومت کے مطابق کشتی کے مسافروں نے کوسٹ گارڈز سے مدد کی کوئی اپیل نہیں کی کیونکہ وہ لوگ اٹلی پہنچنا چاہتے تھے مگر ایک مراکشی نژاد اطالوی سوشل ورکر ”نوال صوفی“ کا کہنا ہے کہ مسافر اس کشتی کے ڈوبنے سے ایک دن پہلے ہی مدد کیلئے التجائیں کر رہے تھے اور وہ لوگ چاہتے تھے کہ کوئی بھی اتھارٹی کسی بھی طرح ان کی جانیں بچانے کیلئے ان کی مدد کرے۔
گواہان کے بیانات کے مطابق کشتی میں کم و بیش 700 افراد سوار تھے جبکہ کشتی کا انجن ڈوبنے سے چند روز پہلے ہی فیل ہو چکا تھا۔ اس حادثہ کے متعلق کئی سوالات جنم لے رہے ہیں جن میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کشتی الٹنے کا سبب کیا تھا۔ ابتدائی بیانات میں یونانی کوسٹ گارڈز نے رسی منسلک کرنے کی تردید کی تھی مگر جمعہ کے روز یونانی حکومت کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کوسٹ گارڈز کی جانب سے کشتی کو مستحکم رکھنے کیلئے رسی پھینکی گئی تھی۔
کوسٹ گارڈز وزن میں اچانک تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں، اس بارے میں بھی کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر وزن میں تبدیلی کی وجہ کیا ہے، کیا کشتی پر کسی قسم کی گھبراہٹ تھی؟ کیا انہیں کچھ فراہم کرنے کی کوشش کے دوران ایسا ہوا یا کشتی کو کسی طرح کھینچا گیا؟ کیا کھینچنے کی وجہ سے کشتی ڈوب گئی؟ سرکاری حکام کے مطابق پیٹرول کشتیاں اور مال بردار بحری جہاز منگل سے اس کشتی کا احاطہ کیے ہوئے تھے، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز نے پہلے ہی کشتی کی حفاظت کیلئے کوئی کوشش کیوں نہ کی۔
بہرحال یہ ایک اہم واقعہ ہے جس نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، سوموار کو اس حوالے سے تمام تر توجہ کا مرکز اس کشتی کا انچارج مصری سمگلنگ رِنگ ہو گا جس کے 9 مشتبہ افراد کو عدالت کے روبرو پیش کیا جائے گا۔