اسلام آباد—جرمنی میں قائم بین الاقوامی نیوز ایجنسی ”ڈی ڈبلیو“ کے واشنگٹن کے بیورو چیف کو انٹرویو دیتے ہوئی امریکی قومی سلامتی اور خارجہ امور کی ماہر ”لیزا کرٹس“ نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاستدان امریکہ مخالف جذبات کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
لیزا کرٹس نے امریکی اخبار ”دی انٹر سیپٹ“ میں شایع ہونے والے مبینہ سائفر کا غیر تصدیق شدہ متن شائع ہونے کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے امریکی حکومت میں خدمات سرانجام دی ہیں اور مجھے معلوم پے کہ سفارتی سطح پر گفتگو کیسے ہوتی ہے، میں سمجھتی ہوں کہ اس معاملہ میں سفارتی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے، امریکہ نے پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ عمران خان سے ناخوش تھے کیونکہ عمران خان نے تقرریوں کے عمل میں مداخلت کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ عمران خان نے کسی کو اگلا چیف آف آرمی سٹاف بھی نامزد کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ اس طرح کی مداخلت کو پاکستانی فوج پسند نہیں کرتی، میری معلومات کے مطابق جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے اپوزیشن جماعتوں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ عمران خان کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں تو فوج عمران خان کو بچانے کیلئے کوئی مداخلت نہیں کرے گی اور پھر ایسا ہی ہوا یعنی تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی اور فوج نے عمران خان کو بچانے کیلئے مداخلت نہیں کی۔
امریکی قومی سلامتی اور خارجہ امور کی ماہر خاتون نے کہا کہ عمران خان نے امریکی حکومت کے کہنے پر یا امریکی مداخلت کی وجہ سے اقتدار نہیں کھویا بلکہ یہ خالصتاً پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات کا نتیجہ تھا، امریکہ نے اس میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی، پاکستان کے سیاستدان اکثر پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو اپنے سیاسی فائدے کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ عمران خان نے بھی ایسا ہی کیا، عمران خان نے سفارتی گفتگو کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کیا اور کہا کہ دیکھو امریکہ یہ چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امریکہ عمران خان کے دورہ روس کی وجہ سے ناخوش تھا کیونکہ عمران خان اس دن روس پہنچے جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا، امریکہ ناخوش تھا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کی یا اس کی کوشش کی، میں نے سفارتی گفتگو پڑھی ہے اور یہ معمولی سی بات تھی کہ امریکی اہلکار نے پوچھا کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو کیا پاکستان اور امریکہ کے طویل المدتی تعلقات بچ سکیں گے، یہ معمولی بات چیت تھی اور اس میں ایسا کوئی مطالبہ نہیں تھا یا ایسا کوئی دباؤ نہیں تھا جس کا عمران خان نے دعویٰ کیا، عمران خان نے صرف سیاسی فائدے کیلئے ایسا کیا۔