اسلام آباد—سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہونے سے قبل برطانوی اخبار “دی گارڈین” کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ تشدد کرنا میری ڈکشنری میں ہی نہیں ہے، ذاتی انتقام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عمران خان کے خلاف مقدمات میں قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے تھے تو ہمارے ساتھ ناروا سلوک رکھا گیا اور جیل مینوئل کی خلاف ورزی کی گئی، ہمیں بری طرح وکٹمائز کیا گیا لیکن ہم انتقام پر یقین نہیں رکھتے، عمران خان کے خلاف مقدمات میں قانون، متعلقہ ادارے اور عدالتیں خود اپنا راستہ اختیار کریں گی۔
دی گارڈین کے مطابق سابق کرکٹر عمران خان کو کرپشن کا جرم ثابت ہونے پر 5 اگست کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا، عدالت کی جانب سے عمران خان کو کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہونے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ آئینِ پاکستان کے مطابق عمران خان پانچ برس کیلئے سیاست کے میدان سے بھی باہر ہو چکے ہیں۔
میاں شہباز شریف نے سائفر کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سفارتی گفتگو میں عمران خان کی حکومت کو گرانے یا ہمیں اقتدار میں لانے کی کسی سازش کا کوئی ذکر نہیں ہے، عمران خان نے اس معاملہ میں حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کیا اور سازش کے جھوٹے الزامات عائد کیے۔
بطور وزیراعظم دیئے گئے انٹرویو میں میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیاسی پختگی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا جس طرح عمران خان جھوٹ بولتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ ان کے پاس سائفر موجود ہے لیکن پھر کہا کہ وہ مجھ سے کہیں کھو گیا ہے اور اب امریکہ میں ایک نیوز ویب سائٹ نے اس کو شائع کر دیا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے 9 اگست کو بطور وزیراعظم صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیا جس سے نگران سیٹ اپ کیلئے راہ ہموار ہو گئی، ایک غیر معروف سیاستدان انوار الحق کاکڑ نے سوموار کو نگران وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ عام انتخابات میں تاخیر کے واضح امکانات موجود ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے “دی گارڈین” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم 2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا شکار ہوئے اور اس کی وجوہات سب جانتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ غلطی اب دوہرائی نہیں جائے گی۔
دی گارڈین کے مطابق پاکستان کی فوج کی جانب سے سویلین سیاستدانوں پر اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی ایک طویل تاریخ موجود ہے، عمران خان کو 2018 کے عام انتخابات میں فوج کی حمایت حاصل تھی اور فوج کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کو ہی عمران خان کے اقتدار سے بےدخل ہونے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ اقتدار سے نکلنے کے بعد اب عمران خان کو کرپشن سے لے کر اقدامِ قتل تک سنگین الزامات پر مبنی کم و بیش ڈیڑھ سو مقدمات کا سامنا ہے۔
عمران خان کی جماعت “تحریکِ انصاف” پر ممکنہ پابندی کے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس بارے میں فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے، مجھے ذاتی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی کی کوئی خواہش نہیں ہے۔
میاں شہباز شریف نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا مقصد دہشتگردوں سے تفتیش کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی زندگیوں کا تحفظ کرنا ہے، یہ قوانین میری جماعت یا کسی کے بھی خلاف نہیں ہوں گے، ایسے الزامات بےبنیاد ہیں کہ یہ قوانین کسی مخصوص جماعت کے خلاف بنائے گئے ہیں۔