واشنگٹن/اسلام آباد—امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ کیمطابق سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے خلاف پاکستان میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران مختلف ذرائع سے تحائف وصول کرنے اور پاکستان کی ایک خاتون صحافی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات قائم رکھنے کے حوالہ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق 31 اکتوبر 2012 سے 27 اکتوبر 2015 تک پاکستان میں امریکی سفیر تعینات رہنے والے رچرڈ اولسن کے خلاف عدالت میں پیش کی گئی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ دوبئی کی ایک نامور شخصیت کی جانب سے رچرڈ اولسن کی خوش دامن (ساس) کو بطور تحفہ 60 ہزار ڈالرز مالیت کے ہیرے کے زیورات دیئے گئے جبکہ رچرڈ اولسن کی جانب سے امریکی محکمہ خارجہ کو اس تحفہ کے متعلق نہیں بتایا گیا اور اس جرم میں انہیں 6 ماہ قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
دوبئی میں امریکی قونصل خانے کے سربراہ کے طور پر تعیناتی کے دوران رچرڈ اولسن کو ان کے دفتر میں دوبئی کے امیر کی جانب سے ایک مخملی ڈبہ موصول ہوا جس کے اندر سفید سونے میں جڑے ہوئے چار ہیرے رکھے گئے تھے، اس ڈبہ میں ایک لاکٹ، ایک انگوٹھی اور بالیوں کا ایک سیٹ بھی موجود تھا، عدالتی ریکارڈ کے مطابق اس تحفہ کی مالیت 60 ہزار ڈالرز تھی، قوانین کے مطابق رچرڈ اولسن کیلئے 285 ڈالرز سے زائد مالیت کے تحفہ کے متعلق امریکی حکام کا آگاہ کرنا ضروری تھا اور وہ وفاقی حکومت کو ایک منصفانہ ادائیگی کے بغیر یہ تحفہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے تھے۔
پاکستان میں تعیناتی سے قبل 14 اکتوبر 2008 سے 2 مئی 2011 تک متحدہ عرب امارات میں بطور امریکی سفیر تعینات رہنے والے رچرڈ اولسن عراق اور افغانستان میں بھی خطرناک اسائنمنٹس پر کام کرتے رہے ہیں، انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ میں 34 برس تک خدمات سرانجام دی ہیں۔
امریکی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے انسپکٹر جنرل ہیروں کے زیورات کے متعلق تفتیش کر رہے ہیں جبکہ امریکی تحقیقاتی ایجنسی ”فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن“ پاکستانی خاتون صحافی کے ساتھ رچرڈ اولسن کے غیر ازدواجی تعلقات کے متعلق پوچھ گچھ جاری رکھے ہوئے ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پاکستان میں تعیناتی کے دوران رچرڈ اولسن نے ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر سے ٹیوشن بلز کی مد میں 25 ہزار ڈالرز حاصل کیے اور اس رقم کو رچرڈ اولسن نے اپنی مبینہ گرل فرینڈ کو نیو یارک بھیجنے اور کولمبیا یونیورسٹی گریجویٹ سکول آف جرنلزم میں داخلہ دلانے کیلئے استعمال کیا جبکہ رقم فراہم کرنے والا پاکستانی نژاد امریکی تاجر فی الوقت غیر قانونی چندہ مہم اور ٹیکس جرائم کے اعتراف کے بعد جیل میں 12 برس قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
رچرڈ گستاوے اولسن جونئیر پاکستان میں بطور امریکی سفیر تعیناتی کے دوران متعدد خواتین کے ساتھ رومانوی تعلقات میں ملوث رہے اور ان تعلقات کے باعث وہ بلیک میلنگ کی زد میں بھی آ سکتے تھے جبکہ رچرڈ اولسن ایک امریکی سفارت کار سے شادی بھی کر چکے تھے جو تب لیبیا میں بطور امریکی سفیر تعینات تھیں۔
امریکی اخبار کے مطابق رچرڈ اولسن نے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کو دیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے سینٹرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے اسلام آباد سٹیشن کے سربراہ کو پاکستان میں خواتین کے ساتھ اپنے غیر ازدواجی تعلقات کے متعلق آگاہ کیا تھا لیکن عدالتی ریکارڈ کے مطابق رچرڈ اولسن نے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کاؤنٹر انٹیلیجینس رولز کے مطابق امریکی ڈپلومیٹک سیکیورٹی آفیشلز کو اپنے تعلقات کے متعلق آگاہ نہیں کیا تھا۔
سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن واشنگٹن میں عدالت کے روبرو دو غلطیوں کا اعتراف بھی کر چکے ہیں، رچرڈ اولسن نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران انہیں خلیج فارس کی ایک انویسٹمنٹ فرم کی جانب سے ملازمت کے انٹرویو کیلئے لندن جانے کیلئے 18 ہزار ڈالرز کا فرسٹ کلاس ٹکٹ فراہم کیا گیا جس کو رچرڈ اولسن نے ظاہر نہیں کیا، رچرڈ اولسن نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ 2017 میں امریکی حکام کے خلاف قطری حکومت کی جانب سے لابنگ میں مصروف رہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رچرڈ اولسن کے خلاف پاکستان میں بطور سفیر تعیناتی کے دوران جس خاتون صحافی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات کی تحقیقات جاری ہیں ان کا نام ”مونا حبیب“ ہے اور رچرڈ اولسن 2019 میں مونا حبیب سے شادی بھی کر چکے ہیں تاہم تحقیقات کا دائرہ ان تین برس پر محیط ہے جس دوران رچرڈ اولسن پاکستان میں بطور امریکی سفیر تعینات تھے اور ان کی اہلیہ ڈیبورا جونز تھیں جن سے وہ 2019 میں علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔
امریکی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ رچرڈ اولسن کے پاکستان میں بطور امریکی سفیر تعیناتی کے دوران مونا حبیب سے دو برس تک غیر ازدواجی تعلقات قائم رہے اور پھر 2014 کے آخر میں مونا حبیب نے اس مؤقف کی بنیاد پر یہ تعلق توڑ دیا کہ رچرڈ اولسن انہیں اور اپنی اہلیہ کو دھوکہ دے رہے ہیں تاہم چند ماہ کے بعد ہی مونا حبیب اور رچرڈ اولسن کا تعلق بحال ہو گیا۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق مونا حبیب کو 2015 میں کولمبیا یونیورسٹی گریجویٹ سکول آف جرنلزم میں داخلہ ملا لیکن وہ اس کیلئے 93 ہزار ڈالرز کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تھیں، رچرڈ اولسن نے مونا حبیب کا رابطہ ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر عماد زبیری سے کروایا جو پاکستان، چین اور مشرقِ وسطیٰ میں اعلیٰ سطح کے سیاسی و کاروباری تعلقات رکھتے تھے۔
عماد زبیری نے مونا حبیب کو 25 ہزار ڈالرز فراہم کرنے اور 50 ہزار ڈالرز کے قرض کا بندوست کرنے کا وعدہ کیا جس کے بعد عماد زبیری نے کولمبیا یونیورسٹی گریجویٹ سکول آف جرنلزم کو 20 ہزار ڈالرز اور مونا حبیب کو 5 ہزار ڈالرز کا چیک بھیجا لیکن 50 ہزار ڈالرز قرض کا بندوست کرنے کا وعدہ پورا نہ کیا۔
عماد زبیری 2021 میں غیر قانونی چندہ مہم اور ٹیکس چوری کے کیس میں جرائم کا اعتراف کرنے پر فی الوقت جیل میں 12 برس قید کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ مونا حبیب اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد قرار دے چکی ہیں اور رچرڈ اولسن کا کہنا ہے کہ ایک سفیر کے طور پر مونا حبیب اور عماد زبیری کے درمیان تعارف کروانا ایک معمولی بات ہے، رچرڈ اولسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ تب ان کا مونا حبیب سے کوئی تعلق نہیں تھا تاہم عدالت میں جمع کروائی گئی ای میلز یہ بتاتی ہیں کہ تب بھی رچرڈ اولسن اور مونا حبیب ایک دوسرے کیلئے جذبات رکھتے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق رچرڈ اولسن نے ہیروں کے زیورات کے متعلق تفتیش میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ تحفہ دوبئی کے امیر کی جانب سے ان کی ساس کو دیا گیا تھا جو دوبئی میں رچرڈ اولسن کے ساتھ مقیم تھیں، رچرڈ اولسن نے بیان میں کہا ہے کہ دوبئی کے امیر ان کے دو بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کیلئے دوبئی آنے پر ان کی ساس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔
رچرڈ اولسن کی سابقہ اہلیہ سے ہیروں کے وہ زیورات واپس بھی طلب کیے گئے مگر رچرڈ اولسن اور ڈیبورا جونز نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ڈیبورا کی والدہ زیورات واپس کرنے پر آمادہ نہیں ہوئیں جبکہ ڈیبورا کی والدہ کی وفات کے بعد انہیں ہیروں کے زیورات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔