صدرِ مملکت عارف علوی پاکستان میں عام انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالہ سے وہ چیف الیکشن کمشنر اور وزارتِ قانون و انصاف کو خطوط بھی لکھ چکے ہیں تاہم دونوں جانب سے موصول ہونے والے جوابی خطوط نے صدرِ مملکت کو ایک کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے۔
صدرِ مملکت عارف علوی نے گزشتہ ماہ وفاقی حکومت کی مدت مکمل ہونے اور اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط لکھ کر عام انتخابات کیلئے تاریخ کے اعلان پر مشاورت کیلئے ملاقات کی دعوت دی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے صدرِ مملکت کو جوابی خط میں ملاقات سے انکار کر دیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، صدر اگر آئین کے آرٹیکل 58 ٹو کے تحت اسمبلی تحلیل کریں تو وہ آرٹیکل 48 فائیو کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں تاہم اگر اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی جائے تو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے۔
ایوانِ صدر نے چیف الیکشن کمشنر کے جوابی خط کے بعد وزارتِ قانون و انصاف کے سیکرٹری کے نام خط لکھ کر چیف الیکشن کمشنر کے اس مؤقف پر قانونی رائے طلب کی کہ عام انتخابات کیلئے تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس ہے۔
وزارتِ قانون و انصاف کی جانب سے صدرِ مملکت عارف علوی کو جوابی خط میں یہ واضح کیا گیا کہ عام انتخابات کیلئے تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہے، آرٹیکل 48 فائیو کے تحت صدر کو صرف اس صورت میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار مل سکتا ہے جب وہ آرٹیکل 58 ٹو کے تحت اسمبلی تحلیل کریں لیکن چونکہ اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر آرٹیکل 58 ون کے تحت تحلیل کی گئی ہے لہذا انتخابات کی تاریخ دینے کی مجاز اتھارٹی الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے۔
اس حوالہ سے ایوانِ صدر میں نگران وفاقی وزیرِ قانون و انصاف احمد عرفان اسلم کی صدرِ مملکت سے ملاقات بھی ہوئی ہے جس میں عام انتخابات کے انعقاد کے متعلق کئی امور پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔
ایک طرف یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ صدرِ مملکت عارف علوی چیف الیکشن کمشنر اور وزارتِ قانون و انصاف کے آئینی مؤقف کے برخلاف کسی بھی وقت اپنے تئیں عام انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں اور ان کی جماعت تحریکِ انصاف بھی ان سے یہی توقع کر رہی ہے مگر دوسری جانب کئی سیاسی راہنماؤں، قانونی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں صدر عارف علوی کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ ایسا کوئی بھی فیصلہ صدر عارف علوی کیلئے باعثِ ندامت ثابت ہو سکتا ہے۔
سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ اب عارف علوی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کی بجائے بطور صدر اپنی مدت مکمل ہونے پر ایوانِ صدر خالی کرنے کی تاریخ کا اعلان کریں اور اپنا بوریا بستر اٹھا کر تحریکِ انصاف کے سیکرٹریٹ منتقل ہو جائیں۔
مسلم لیگ نواز کے راہنما عطاء اللّٰہ تارڑ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدرِ پاکستان کے عہدہ کی مدت 9 ستمبر کو مکمل ہو چکی ہے جس کے بعد اب عارف علوی ایک عبوری صدر کی حیثیت سے ایوانِ صدر میں موجود ہیں جبکہ ایک عبوری صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک نجی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے مطابق صدر عارف علوی کے پاس انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار نہیں ہے اور اگر اس کے باوجود عارف علوی غیر آئینی طور پر تاریخ دیتے ہیں تو یہ بدنیتی ہو گی۔
ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے راہنما قمر زمان کائرہ اور مسلم لیگ نواز کے راہنما خرم دستگیر خان بھی یہ مؤقف بیان کر چکے ہیں کہ صدر عارف علوی انتخابات کیلئے تاریخ کے اعلان کا اختیار نہیں رکھتے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ملک مزید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
جہاں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدر عارف علوی کسی بھی وقت عام انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان کر دیں گے وہیں ایوانِ صدر کے ذرائع نے اس تاثر کو غلط بھی قرار دیا ہے، ایوانِ صدر کے ذرائع کے مطابق صدر عارف علوی انتخابات کے متعلق ابھی مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔