اسلام آباد—سپریم کورٹ آف پاکستان میں ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023“ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت ہوئی جس کو براہِ راست نشر کیا گیا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی ٹیلی ویژن پر براہِ راست دکھائی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز منصب سنبھالنے کے بعد اس کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا جس کے بعد آج سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام 15 ججز نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئین عدلیہ کی آزادی سے نہیں بلکہ اللّٰه تعالیٰ کے بابرکت نام سے شروع ہوتا ہے، آپ چیف جسٹس کو مکمل بااختیار بنانا چاہتے ہیں لیکن میں جوابدہ ہوں، آئین کے آرٹیکل 227 کے تحت اگر کوئی قانون شرعی اصولوں سے متصادم ہو تو وہ غالب ہوں گے، یہاں ”میرا“ اور ”میری“ کا لفظ استعمال نہ کریں بلکہ آئین کا حوالہ دیں.
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے حلف اٹھایا ہوا ہے، میں آئین و قانون کے تابع ہوں، میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ججمنٹس کو دیکھوں لیکن آئین کو چھوڑ دوں، ملک میں مارشل لاء بھی لگے اور اس وقت کے فیصلے بھی موجود ہیں مگر میں ان کے تابع نہیں ہوں، یہاں طویل بحث کی جا رہی ہے اور دوسری جانب 57 ہزار مقدمات زیرِ التواء ہیں، ہمارا وقت بہت قیمتی ہے، اگر پارلیمنٹ نے کوئی قانون بنایا ہے تو بنیادی حقوق پر فوکس کریں۔
چیف جسٹس نے ریکوڈک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں جو فیصلہ دیا گیا اس سے ملک کو ساڑھے چھے ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، مجھے ایسی طاقت نہیں چاہیے کہ ملک کو اتنا بڑا نقصان ہوتا ہے تو ہوتا رہے لیکن چیف جسٹس کی ساکھ میں کمی نہ آئے، اگر آپ مجھے ایسی پاورز دینا بھی چاہیں تو میں نہیں لوں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دیگر ممالک میں بینچز چیف جسٹس نہیں بناتا بلکہ عدالتی سال شروع ہونے سے پہلے فل کورٹ بیٹھتا ہے اور پھر بیلٹ سے بینچز تشکیل پاتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا کہ جس کو چاہے بینچ میں بٹھا دے، نیپال جیسے ملک میں بھی چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل تو اختیارات کے استعمال میں شفافیت لا رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ایک موقع پر درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کے جواب میں ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں قانون اچھا بنا ہے لیکن پارلیمنٹ کے پاس اختیار نہیں تھا اور اگر یہ غیر منتخب ججز بیٹھ کر یہی چیز کر لیں تو بہتر ہو گا، اس کا مطلب ہے کہ کوئی بنیادی حقوق نہیں ہے، قانون کے مطابق پارلیمنٹ کے پاس ہماری ججمنٹس کو غیر مؤثر کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟ اپیل کا حق دینے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے؟ اگر یہ اختیار پارلیمنٹ کو حاصل نہیں تھا تو کیا 15 غیر منتخب ججز کو یہ اختیار ہے؟ صرف چیف جسٹس کے پاس بینچز تشکیل دینے کا اختیار ہونا غلط ہے۔
ایک موقع پر درخواست گزار کے وکیل کے دلائل پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بحث سے یہی لگ رہا ہے کہ اگر فل کورٹ بیٹھ کر یہی قانون بنا لے تو درست ہے لیکن اگر پارلیمنٹ یہی قانون بنائے تو غلط ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قوانین تو پارلیمنٹ بناتی ہے لیکن آپ کے دلائل سن کر ایسا لگتا کہ آپ پارلمینٹ کے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ کام سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کرے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ
وفاقی کابینہ نے رواں برس مارچ میں ایک خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کیلئے قانون سازی کا فیصلہ کیا جس کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی گئی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز ازخود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، ازخود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہو گا، اپیل دائر ہونے کے بعد 14 روز کے اندر سماعت کیلئے مقرر کرنا ہو گی۔
بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کے بعد صدر کو بھیجا گیا تاہم صدر نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجوایا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔ دس اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرنے کے بعد دوبارہ صدر کو دستخط کیلئے بھیج دیا گیا، اکیس اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہو کر قانون بن گیا۔