ایس ایس پی ای ایک نایاب اور جان لیوا دماغی بیماری ہے، اس کا تعلق خسرہ کے انفیکشن سے ہے اور یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ خسرے کی پیچیدہ ترین شکل ہے۔ اس بیماری کی وجہ بچپن میں خسرے کی ویکسین کا نہ لگنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ موثر ویکسینیشن ہوتی ہے لہذا وہاں اس بیماری کی شرح بھی کم ہے۔ یہ بیماری عام طور پر بچوں اور نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے جبکہ اس کا شکار ہونے والوں میں خواتین کی نسبت مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ بچے جنہیں دو سال سے کم عمر میں خسرے کا انفیکشن ہوتا ہے، ان میں اس بیماری کے پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
سباکیوٹ سکلیروزنگ پیننسفالائٹس (ایس ایس پی ای) کا سبب میوٹینٹ میزلز وائرس ہوتا ہے جو کہ وائرس کی ایک تبدیل شدہ شکل ہے اور یہ اصل وائرس کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اصل وائرس دماغ کو نقصان نہیں پہنچاتا جبکہ یہ وائرس مریض کے دماغ میں مستقل سکونت پذیر ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بیماری کی علامات خسرے کے ابتدائی انفیکشن کے ٹھیک ہو جانے کے کئی سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ عام طور پر بیس سال سے کم عمر افراد میں علامات ظاہر ہو جاتی ہیں اور علامات ظاہر ہونے کے بعد ایک سے تین سال کے اندر مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بیماری کے چار مرحلے ہیں اور ہر مرحلہ پہلے سے زیادہ شدید اور سخت نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ وائرس سب سے پہلے مریض کے دماغ میں سوزش پیدا کرتا ہے جس سے دماغ کی بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور نتیجتاً مریض کے مزاج، رویہ اور شخصیت میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ چڑچڑا ہو جاتا ہے اور اس کے ارتکاز میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ یادداشت اور علمی سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ اگلے مرحلہ میں وائرس دماغی خلیوں کو تباہ کرنا شروع کرتا ہے جس سے مریض کے پٹھے سخت ہو جاتے ہیں، اس کو دورے پڑنے لگتے ہیں جبکہ بولنے اور خوراک نگلنے میں مشکل ہوتی ہے یعنی ہم آہنگی نہیں رہتی۔ جب بیماری مزید بڑھتی ہے یعنی تیسرے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو مریض کے دماغ میں زخم بن جاتے ہیں جس سے دماغ کی ساخت میں تبدیلی آ جاتی ہے اور دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان سگنلز کی ترسیل میں بھی رکاوٹ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے جبکہ اس کا نتیجہ بےشمار اعصابی بیماریوں کی شکل میں سامنے آتا ہے، یادداشت اور نظر ختم ہو سکتی ہیں اور دوروں کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آخری مرحلہ میں دماغ کے ایسے حصے جو دل اور پھیپھڑوں کو کنٹرول کرتے ہیں وہ تباہ ہو جاتے ہیں، مریض کومہ میں چلا جاتا ہے اور بالآخر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
بدقسمتی سے ابھی تک یہ لاعلاج بیماری ہے اور اس کی روک تھام کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ایسی دوائیں استعمال کی جائیں جن سے مرض کی علامات کو کنٹرول اور مریض کے امیون سسٹم (دفاعی نظام) کو مضبوط کیا جا سکے اور مریض کی بہت زیادہ دیکھ بھال کی جائے۔ یہ بیماری خسرے کی بگڑی ہوئی اور پیچیدہ ترین شکل ہے۔ یہ بیماری ہر گز ڈیپریشن سے نہیں ہوتی۔ چند روز قبل لاہور میں اسی بیماری سے وفات پا جانے والے بچے “عمار” کے متعلق کچھ لوگوں کا یہ گمراہ کن مؤقف ہے کہ عمار کو ڈیپریشن کی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہوئی حالانکہ اس بیماری کی وجوہات میں ڈیپریشن شامل نہیں ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق عمار سٹیج تھری یا فور (تیسرے یا چوتھے مرحلہ) کا مریض تھا، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس بات سے اس کے والدین لاعلم ہوں؟ یقیناً ڈاکٹرز نے والدین کو بچے (عمار) کی بیماری کی شدت اور اس کی ممکنہ وفات کے بارے میں آگاہ کیا ہو گا کیونکہ مرض کی اصل شدت یا نوعیت اور ممکنہ نتائج سے آگاہ کرنا ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک والد اپنے بچے کو ایسی خطرناک حالت میں چھوڑ کر فوجی تنصیبات اور ریاستی املاک پر حملہ کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے، وہ کیسے اپنے بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ کر ملکی قیادت کو دھمکیاں دے سکتا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ قوانین میں ایسے جرائم پر سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔