اسلام آباد (دی تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان میں ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023“ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آج تیسری فل کورٹ سماعت ہوئی جس کو پہلی دونوں سماعتوں کی طرح سرکاری ٹیلی ویژن سے براہِ راست نشر کیا گیا
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے آغاز میں کہا کہ جب بوٹوں تلے سب کچھ روندا جاتا ہے تو اس وقت سب عقل و دانش اور فلسفہ بھول جاتے ہیں، تب سارا فلسفہ اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے، پاکستان میں ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو یرغمال بنا لیتا ہے، وہ ایک شخص فیصلے کرتا ہے اور پارلیمنٹ ربر سٹیمپ بن کر رہ جاتی ہے، پاکستان کی تاریخ بڑی خراب ہے، غلط فیصلوں کی وجہ سے ہمارا ملک آدھا رہ گیا ہے۔
ایک موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے کہیں بھی ایسے رولز نہیں ملے جن کے تحت یہاں ایسی پریکٹس جاری تھی کہ ہر ہفتہ چیف جسٹس کو کیسز بھیجے جاتے ہیں اور چیف جسٹس بینچز بناتا ہے کہ کون سا جج کون سا کیس سنے گا، یہ چیف جسٹس کا کام نہیں بلکہ رجسٹرار کا کام ہے، مجھے رولز میں وہ پاور کہیں بھی نہیں ملی جس کے تحت چیف جسٹس ایسا کرتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں کسی کا ماسٹر نہیں ہوں، میں آئین کا ملازم اور اللّٰه تعالٰی کا عبد یعنی ایک بندہ ہوں، ایک جج کی یہی جگہ ہوتی ہے اور یہی رہنی چاہیے، پاکستان کا آئین اور پاکستان کے قوانین کسی چیف جسٹس کے تابع نہیں ہیں، واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین اور آئین کسی چیف جسٹس کی مرضی اور خواہشات کے تابع نہیں ہیں، چیف جسٹس کا مطلب پوری عدلیہ نہیں ہوتا بلکہ چیف جسٹس ایک فرد ہے جبکہ عدلیہ کا مطلب تمام ججز ہیں۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ میں بھارتی فیصلوں کی مثالیں دی جاتی ہیں، کیا آپ نے کبھی وہاں سے پاکستانی سپریم کورٹ کی مثالیں سنی ہیں؟ وہ جو کرتے ہیں انہیں کرنے دیں، وہ پہلے اپنے آرٹیکل 370 کا تو کچھ کر لیں، ہم بھارت اور دوسرے ممالک کو تو دیکھتے ہیں لیکن اسلام کی بات نہیں کرتے حالانکہ ہمارا آئین شروع ہی اسلام سے ہوتا ہے۔
درخواست گزار وکیل عابد زبیری نے ایک موقع پر کچھ کاغذات پیش کیے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب کیس کے دوران آپ نے کاغذات دینا شروع کر دیئے ہیں، کیا دنیا میں ایسا ہوتا ہے؟ آپ امریکہ اور یورپ کی مثالیں دیتے ہیں لیکن یہاں پر اپنی مرضی کرتے ہیں، ایسا وہاں جا کر کریں پھر آپ کو پتہ چلے گا، آپ سینئر کونسل ہیں تو آپ کو اتنا تو پتہ ہونا چاہیے۔
ایک موقع پر عابد زبیری نے اعتراض اٹھایا کہ ”ہمارے کیسز کو سنا ہی نہیں جا رہا“ تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ”وہ اس لیے کہ آپ اس کیس کو ختم ہونے ہی نہیں دے رہے“۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی شخص زخمی ہو اور وہ سڑک پر مر رہا ہوں جبکہ وہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہ ہو، تب اگر وہاں کوئی شخص جو کہ ڈاکٹر نہ ہو اور وہ مریض کی جان بچانے کیلئے کوشش کرے تو کیا وہ غیر قانونی ہو جائے گا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے، ہم یہاں پاکستانی عوام کیلئے کام کرنے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں اور عوام ڈکٹیٹ کر سکتے ہیں کہ ہم نے کیسے کام کرنا ہے۔
ایک موقع پر درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، وکیل امتیاز صدیقی نے اعتراض اٹھایا کہ ”مجھے نہ سننا ناانصافی ہے، آپ کا ہمارے ساتھ سلوک ٹھیک نہیں ہے، آپ کے رویے کی وجہ سے آج خواجہ طارق رحیم سپریم کورٹ نہیں آئے ہیں“ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ ”آخر تمیز سے بات کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا خواجہ طارق رحیم نے آپ سے یہ پیغام پہنچانے کیلئے کہا ہے؟ جو لوگ یہاں موجود نہیں ہیں آپ ان کی نمائندگی کرتے ہوئے دلائل مت دیں، اس سے پہلے کہ میں کوئی حکم جاری کروں آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں“۔