اسلام آباد—سپریم کورٹ آف پاکستان میں ”سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023“ کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آج چوتھی فل کورٹ سماعت ہوئی جس کو پہلی تینوں سماعتوں کی طرح سرکاری ٹیلی ویژن سے براہِ راست نشر بھی کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے اور نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں، پارلیمنٹ نے آئین کو ایک ایسی جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کو ہائی کورٹ سے پاورز چھین کر دی گئیں لیکن یہاں سپریم کورٹ سے کوئی پاور نہیں لی جا رہی بلکہ مزید اختیار دیا جا رہا ہے، جب ہائی کورٹ کی پاورز چھینی گئیں تو اس وقت کیونکہ ایک ڈکٹیٹر نے ترامیم کی تھیں لہذا کوئی بھی نہیں بولا اور پوری اسلامی مملکت خاموش رہی، تب دین اور ایمان کہاں چلے جاتے ہیں؟
ایک موقع پر جب یہ سوال کیا گیا کہ اس بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کہاں ہو گی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جو یہاں اپیل کی بات کی جا رہی ہے تو پھر کیا مجھے ایک چھوٹا بینچ بنانا چاہیے تھا تاکہ اس بینچ کے فیصلے کو ایک اور بینچ کے سامنے اپیل کیا جا سکتا؟ جب میں نے فل کورٹ بینچ بنایا تو کسی بھی جج نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
ایک موقع پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ میرے لیے “صاحب” کا لفظ استعمال نہیں کیا کریں بلکہ صرف “چیف جسٹس” کہہ دیں، وہی کافی ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے دورانِ سماعت درخواست گزار کے ایک وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جب اپنی مرضی کا بینچ بنوا کر ڈکٹیٹرز کے فیصلوں کو توثیق دی جاتی تھی تو آپ سڑکوں پر ہوتے تھے لیکن آج جب اختیار ایک چیف جسٹس سے لے کر تین ججز کو دیا جا رہا ہے تو آپ نے رولا ڈال دیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ نے پہلی مرتبہ ڈکٹیٹرشپ کو روکنے کیلئے ایک قانون بنا دیا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ غلط ہو گیا ہے، ایسا کیوں ہے؟ کم از کم اتنا تو کہہ دیں کہ یہ قانون ٹھیک بنا ہے، آپ ڈکٹیٹرشپ کو کیوں پروموٹ کرنا چاہتے ہیں؟
جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل کے جواب میں سابق صدر پرویز مشرف کا ذکر کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ ڈکٹیٹرشپ کو پروموٹ نہ کریں، پاکستان کو چار مرتبہ ڈکٹیٹرز نے ٹیک اوور کیا، آخری مرتبہ پرویز مشرف نے کیا، پاکستان کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، اب کم از کم یہ تو مان لیں کہ پارلیمنٹ نے جو قانون بنایا ہے وہ درست ہے۔
ایک موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ “پارلیمنٹ نے تسلیم کیا کہ آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا” جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ “آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگاتا”۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی بھی آرٹیکل پارلیمنٹ سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لے سکتا۔