فیض آباد دھرنا کو 6 برس بیت گئے مگر اس کو سپانسر کرنے والے عناصر آج تک قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے جبکہ آئین شکن عناصر کے اشاروں پر پورے ملک میں مذہبی آگ لگانے والا جتھا ”تحریکِ لبیک“ نہ صرف پوری آب و تاب کے ساتھ دندناتا پھرتا ہے بلکہ دین کو تخت پر لانے کے نعرے کے ساتھ آج بھی مذہب کو سیاسی میدان میں مذموم مفادات کے حصول کیلئے خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز 11 مئی 2013 کو عام انتخابات میں ملکی تاریخ کی شاندار ترین کامیابی کے بعد وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب تو ہو گئی مگر غیر جمہوری قوتیں ”پراجیکٹ عمران خان“ کی صورت میں تیسری قوت بنا کر اس کو ملک و قوم پر مسلط کرنے کا فیصلہ کر چکی تھیں اور اسی مقصد کے تحت وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت پر دھرنوں، ڈان لیکس، پاناما پیپرز، لندن پلان اور مذہب کارڈ کی صورت میں پے در پے حملے کیے گئے۔
میاں نواز شریف چونکہ ”پراجیکٹ عمران خان“ کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ تھے لہذا انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے ان کے خلاف بدترین سازشیں تیار کی گئیں، ان سازشوں میں سب سے زیادہ خطرناک ”مذہب کارڈ“ تھا جبکہ ”مذہب کارڈ“ کے تحت کیے گئے حملوں میں سب سے زیادہ خطرناک “فیض آباد دھرنا” تھا، اس دھرنا نے پورے ملک میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کیلئے نفرت کی آگ بھڑکا دی اور ایسا ماحول پیدا ہو گیا کہ برسرِ اقتدار جماعت کے راہنماؤں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔
فیض آباد دھرنا سپانسر کرنے والوں نے اس کی بنیاد بھی خود رکھی تھی، پہلے ”پراجیکٹ عمران خان“ کے تحت قومی اسمبلی میں پہنچائی گئی کٹھ پتلیوں کے ذریعہ ختمِ نبوت قانون سے متعلق حلف نامہ میں دو مترادف الفاظ کا تبادلہ کروایا گیا اور پھر اس بےوقعت سی تبدیلی کو ختمِ نبوت قانون سے غداری قرار دے کر اس کا ملبہ مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت پر ڈال دیا گیا، اگلے مرحلہ میں ممتاز قادری معاملہ کی آڑ میں بنائے گئے ایک مذہبی جتھے کو گالم گلوچ کیلئے فیض آباد میں بٹھا دیا گیا اور پھر پورے ملک میں موجود مذہب فروشوں کے ذریعہ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر کفر و ارتداد کے فتوے لگوائے گئے۔
مذہب کی بنیاد پر کھیلے گئے اس خطرناک ترین کھیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تقریب کے دوران ایک انتہا پسند نے میاں نواز شریف پر جوتا اچھال دیا، خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی، پروفیسر احسن اقبال کو قاتلانہ حملہ میں بازو پر گولی لگی، اشتعال انگیز اور شدت پسند عناصر کے شر سے بچنے کیلئے مسلم لیگ نواز کے کئی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے گھروں تک محدود ہو گئے جبکہ مذہب فروشوں نے مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینے والوں پر بھی فتوے لگا دیئے۔
یہ دھرنا چونکہ طاقتور غیر جمہوری عناصر نے سپانسر کیا تھا لہذا ”نامعلوم“ وجوہات کی بناء پر دھرنا کے شرکاء پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) پر حاوی دکھائی دیئے، ویڈیوز میں اہلکاروں پر بہیمانہ تشدد ہوتا ہوا بھی دیکھا گیا، ملک کے وزیراعظم یعنی ریاست کے چیف ایگزیکٹو شاہد خاقان عباسی نے آرمی چیف کو فیض آباد دھرنے سے نمٹنے کیلئے کردار ادا کرنے کا کہا تو وزیراعظم کے ماتحت کام کرنے والے اس سرکاری ملازم نے حکم ماننے سے انکار کر دیا، بعدازاں دھرنا ختم ہوا تو حیران کن طور پر ڈی جی رینجرز پنجاب کی طرف سے دھرنا کے شرکا میں نقد رقوم لفافوں میں دینے کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (موجودہ چیف جسٹس) اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا سے متعلق کیس کے فیصلہ میں اس حوالہ سے تمام مسلح افواج کے اہلکاروں، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور انٹر سروسز انٹیلیجنس کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی اور آئین کی پاسداری کا حکم دیا لیکن طاقتور عناصر نے خود احتسابی کی بجائے آئین شکنی کا سلسلہ جاری رکھا، بعدازاں مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیج کر انہیں آئین و قانون کے مطابق درست فیصلہ سنانے کے جرم کی سزا دی گئی جس میں ان کی اہلیہ کو بھی سنگین نوعیت کے بےبنیاد الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان میں مذہب ہمیشہ ایک انتہائی نازک اور حساس معاملہ رہا ہے اور مذہبی جنونیت کو خطرناک حد تک پروان چڑھانے میں فوجی آمریت کا کردار ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، آئین شکن جرنیلوں نے اقتدار و اختیارات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے متعدد مذہبی جتھے تیار کیے، ان جتھوں کے خونی کھیل نے ملک کو نہتے شہریوں کی لاشوں کے تحفے دیئے اور پھر ان جتھوں کو دہشتگرد قرار دے کر انہیں ختم کرنے کیلئے ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔
تحریکِ لبیک دراصل ”پراجیکٹ عمران خان“ کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر وجود میں لائی گئی اور چونکہ اس کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی تھی لہذا اس کی پھیلائی ہوئی آگ اپنے اصل ہدف یعنی صرف نواز شریف اور ان کی جماعت تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا، حتیٰ کہ ”پراجیکٹ عمران خان“ کا مرکزی کردار عمران خان بھی اس سے متاثر ہوا جبکہ کچھ چنگاریاں اس فیکٹری تک بھی پہنچیں جہاں اس جتھے کو تیار کیا گیا تھا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جہاں ”پراجیکٹ عمران خان“ معاشی بدحالی، دفاعی کمزوری، دہشتگردی، سفارتی تنہائی، اندرونی انتشار اور فتنہ و فساد کی صورت میں اپنے معماروں کے گلے پڑ چکا ہے وہیں اس پراجیکٹ کی ذیلی شاخ ”تحریکِ لبیک“ بھی فیکٹری مالکان کی گرفت سے باہر نکلتی ہوئی نظر آ رہی ہے، سب سے زیادہ نقصان بہرحال مسلم لیگ نواز کا ہوا ہے جس کا سیاسی ووٹ بینک شدید متاثر ہوا اور اس کے ہزاروں یا شاید لاکھوں حامیوں کو جذباتی نعروں کے ذریعہ مذہبی طور پر گمراہ کر کے تحریکِ لبیک کی صورت میں معاشرے کیلئے ایک وبال بنا دیا گیا۔
غیر جمہوری قوتوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہوتا اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کیا ہوتا تو آج پاکستان بلاشبہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا مگر ملک کو اپنے تجربات کیلئے ایک لیبارٹری کے طور پر استعمال کرنے والوں نے اپنی انا کی تسکین کیلئے آئین شکنی کا سلسلہ جاری رکھا اور آج ہمیں ان آئین شکن قوتوں کے ”عمرانی ایڈونچر“ کے نتیجہ میں ایک بار پھر اندرونی و بیرونی طور پر کئی چیلنجز درپیش ہیں جن کا مقابلہ یقیناً ہمیں ہی کرنا ہو گا کیونکہ ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آئین شکن عناصر کے تمام جرائم کا خمیازہ سیاسی جماعتوں اور عوام نے ہی بھگتا ہے۔