اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — پاکستان مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور سینیٹ میں قائدِ ایوان اسحاق ڈار نے ایوانِ بالا سے خطاب کرتے ہوئے تحریکِ انصاف حکومت کے دوران افغانستان کے متعلق پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ طالبان حکومت آنے کے بعد ان سے انگیج کرنے کیلئے کابل جانے کی کیا ضرورت تھی؟
سینیٹر اسحاق ڈار نے تحریکِ انصاف حکومت میں انٹر سروسز انٹیلیجنس کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کے دورہ کابل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کس کے کہنے پر اور کیوں کابل جا کر طالبان حکومت سے انگیج کیا گیا؟ وہ خطرناک دہشتگرد جو پاکستان میں دہشتگردی کے درجنوں واقعات میں ملوث تھے اور پھر پاکستان کی جیلوں میں قید تھے، انہیں کیوں اور کس کے کہنے پر رہا کروایا گیا؟ قوم کو ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ ان دہشتگردوں کو کیوں آزاد کروایا؟
سینیٹ میں قائدِ ایوان نے خطاب کرتے ہوئے سوالات اٹھائے کہ وہ کون تھا جو پاکستان کی تقدیر کے ساتھ کھیلتا رہا؟ کابل جا کر فوٹو سیشن کیوں کروایا گیا؟ قوم کی تقدیر کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کیوں کھیلا گیا؟ کابل میں جو طے ہوا وہ پارلیمنٹ میں کیوں بیان نہیں کیا گیا؟ اس بارے میں پاکستان کے عوام کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ آخر کیوں اتنے بڑے دہشتگردوں کو چھوڑ دیا گیا؟
سابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردی معیشت اور لوڈشیڈنگ سے بھی بڑا مسئلہ ہے، میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ہی دہشتگردی کے ناسور کو ختم کیا تھا، میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز کیے گئے۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ آرمی پبلک سکول کے واقعہ نے ملک و قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اس واقعہ کے بعد ہم سب نے مل کر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا، پاکستان میں بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ تھی، ہماری حکومت نے ہی پاکستان کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلائی، شہباز شریف کی وزارتِ عظمیٰ میں ہم نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی توانائی کے بحران سے بڑا ناسور ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے اربوں روپے درکار ہوتے ہیں، دہشتگردی کی حالیہ لہر کہاں سے آئی؟ دہشتگردی میں یہ اضافہ کیوں ہوا؟ قوم کو اعتماد میں لیے بغیر سینکڑوں دہشتگردوں کو کیوں رہا کر دیا گیا؟ کابل جا کر طالبان حکومت سے انگیج کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے یہ سب کیوں کیا؟