اسلام آباد (تھرسڈے ٹائمز) — سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے۔
عدالتِ عظمٰی نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد کا نوٹس لیا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ پر مشتمل بینچ نے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ لارجر بینچ میں مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔
تاحیات نااہلی سے متعلق پاناما کیس اور الیکشن ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ میں میر بادشاہ قیصرانی کی نااہلی کے کیس کی سماعت کے دوران زیرِ بحث آئیں، چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو 2007 میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا مگر ہائی کورٹ نے انہیں 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی حالانکہ میر بادشاہ قیصرانی کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اگر سزا ختم ہو گئی تھی تو نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی تھی؟ اس پر وکیل درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آ چکا ہے؟ وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 برس کر دی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی، جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئی تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا، الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نااہلی کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات سر پر ہیں جبکہ ریٹرننگ آفیسرز، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے جبکہ آرٹیکل 63 ون جی میں نااہلی کی مدت 5 سال ہے اور آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پر نااہلی کی مدت 3 برس ہے، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے، ایک طرف پارلیمنٹ کی قانون سازی ہے اور دوسری طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ، آر او کس پر انحصار کرے گا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات کا وقت قریب ہے لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ وہ الیکشن لڑے گا یا نہیں، تاحیات نااہلی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں سے کسی ایک کو برقرار رکھنا ہو گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سنگین غداری جیسے جرم پر نااہلی کی مدت 5 سال ہے تو پھر نماز نہ پڑھنے یا جھوٹ بولنے والے کی تاحیات نااہلی کیوں؟
عدالت نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔