بالآخر پاکستان میں عام انتخابات کی فضا قائم ہو چکی ہے، ہر طرف سیاسی گہما گہمی ہے جبکہ سیاسی جماعتیں ووٹرز کو قائل کرنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتی ہیں اور اسی دوران ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لب و لہجہ میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
منفرد اندازِ گفتگو رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تاہم حالیہ جلسوں کے دوران ان کی گفتگو میں سابق وزیراعظم اور سابق چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی جھلک نظر آئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ بلاول بھٹو عمران خان کے لب و لہجہ سے متاثر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ برق رفتاری سے عمران خان کی تُو تَڑاق والی زبان بولتے نظر آ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایسی زبان کا استعمال غیر معمولی بات ہے، آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ بلاول بھٹو کی ابتدائی پرورش ان کی والدہ یعنی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کی جبکہ بعد ازاں والد آصف علی زرداری نے ان کی تربیت کا بیڑا اٹھایا جو پاکستان کے صدر رہ چکے ہیں، بھٹو خاندان جیسے معروف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کی تقاریر میں یکایک عمران خان کے طرزِ گفتگو کی جھلک دکھائی دینا حیران کن ہے۔
عمران خان اپنی توہین آمیز گفتگو، حقارت آمیز جملہ بازی، مخالفین پر بےجا تنقید، انہیں “تُو” کہہ کر مخاطب کرنے، ذاتی نوعیت کا مذاق اڑانے، گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے جیسی دھمکیاں دینے، جیلوں میں قید کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے اور سیاسی و فوجی شخصیات کو چور، ڈاکو، غدار، میر جعفر اور میر صادق جیسے ناموں سے پکارنے کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں خاصے مشہور ہیں۔
بلاول بھٹو کی تقاریر میں عمران خان کے روایتی انداز کی جھلک دیکھ کر کافی لوگ تشویش میں مبتلا ہیں، بلاول بھٹو کچھ عرصہ پہلے تک جن سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور ان کی تعریفیں کرتے رہے، آج انھی کے خلاف جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ذاتی نوعیت کے حملے کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلاول بھٹو کی گفتگو میں رونما ہونے والی اس تبدیلی سے وہ شہباز شریف بھی محفوظ نہ رہ سکے جن کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بلاول یہاں تک کہتے رہے کہ شہباز شریف اپنی پارٹی سے زیادہ ہمارے وزیراعظم ہیں اور یہ کہتے ہوئے بھی پائے گئے کہ کراچی کو بھی شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ پہلے ہی عمران خان کی وجہ سے پھیلی پولرائزیشن کا شکار نظر آتا ہے، پاکستان فی الحال سنجیدہ نوعیت کے سیاسی و معاشی چیلنجز سے دو چار ہے جبکہ معاشرے کے اندر ایک واضح خلیج نظر آتی ہے جہاں عمران خان کے حامیوں کو تحریکِ انصاف کے علاوہ ہر جماعت اور اس میں شامل ہر شخص چور اور ڈاکو لگتا ہے، اس نفرت اور تقسیم کے ماحول میں بلاول بھٹو کی جانب سے ایسا لب و لہجہ یقیناً پاکستانی معاشرے کیلئے مزید خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔
سیاسی بنیادوں پر منقسم پاکستانی معاشرہ مزید نفرت اور تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا، بلاول بھٹو کا نیا انداز سیاسی ماحول کو مزید زہر آلود کر سکتا ہے، سیاسی گفتگو میں جارحانہ زبان اور ذاتی نوعیت کے حملے جمہوری عمل کیلئے شدید نقصان دہ ہو سکتے ہیں جبکہ اس سے سیاسی ماحول میں کشیدگی میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
بلاول بھٹو کی جانب سے عمران خان جیسا لب و لہجہ انہیں اور ان کی جماعت کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ ماضی کو دیکھا جائے تو عمران خان کا ایسا ہی رویہ ان کے حامیوں کو شدت پسندی تک لے گیا جس کا نتیجہ پاکستان کو 9 مئی کی شکل میں بھگتنا پڑا اور اب پاکستان یقینی طور پر 9 مئی جیسے کسی نئے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔