لندن (تھرسڈے ٹائمز) — برطانوی نشریاتی ادارہ (بی بی سی) نے لکھا ہے کہ اِس بار نواز شریف کی وطن واپسی ماضی میں ان کی ہر واپسی سے زیادہ طاقتور ہے جبکہ نواز شریف ایک بار پھر پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
نواز شریف گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستانی سیاست میں غالب رہے ہیں تاہم اِس بار بہت کم لوگ ان کی وطن واپسی کی توقع کر رہے تھے، تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف گزشتہ برس اکتوبر میں وطن واپس آئے اور اب وہ واضح طور پر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات جیتنے کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آ رہے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق نواز شریف کو طویل عرصہ سے پاکستان کی طاقتور فوج کے مخالف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ان کا تیسرا دورِ حکومت بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائے جانے پر ختم ہوا جبکہ اس سے قبل ایک فوجی بغاوت نے نواز شریف کی دوسری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس سب کے باوجود ان کی حالیہ وطن واپسی بلاشبہ ایک زبردست کامیابی ہے۔
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف کو آئندہ انتخابات کے نتیجہ میں وزارتِ عظمٰی کے مضبوط ترین امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے کارڈز بہترین انداز میں کھیلے ہیں، نواز شریف کے سخت حریف اور سابق وزیراعظم عمران خان فی الحال جیل میں قید ہیں جنہیں کچھ عرصہ پہلے تک طاقتور فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔
نواز شریف پاکستان کے سیاسی منظر نامہ کو پلٹنے میں بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہوں نے ماضی میں بھی ایسا کر کے دکھایا ہے، نواز شریف کی دوسری حکومت کو فوجی بغاوت کے تحت معزول کر دیا گیا تاہم وہ 2013 کے پارلیمانی انتخابات میں فاتحانہ واپسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ یہ پاکستان کیلئے ایک تاریخی لمحہ تھا کیونکہ 1947 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ اقتدار ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا تاہم نواز شریف کا تیسرا دورِ اقتدار مسلسل ہلچل کا شکار رہا جس کا آغاز دارالحکومت میں اپوزیشن کی جانب سے 6 ماہ کے دھرنا سے ہوا جبکہ اس کا اختتام عدالت کی جانب سے جولائی 2017 میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے پر ہوا جس کے فوراً بعد نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا۔
ایک پاکستانی عدالت نے جولائی 2018 میں نواز شریف کو 10 برس قید کی سزا سنائی تاہم انہیں دو ماہ بعد ہی رہا کر دیا گیا جب عدالت نے حتمی فیصلہ آنے تک ان کی سزا کو معطل کر دیا، دسمبر 2018 میں انہیں سات سال قید کی سزا سنا کر دوبارہ جیل بھیج دیا گیا جس کیلئے سعودی عرب میں ایک سٹیل مل میں ان کے خاندان سے متعلق ملکیت کو بنیاد بنایا گیا۔
برطانوی نشریاتی ادارہ کے مطابق 2019 میں ضروری طبی علاج کی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت منظور کی گئی جس کے بعد نواز شریف لندن روانہ ہو گئے جہاں وہ چار سال تک رہنے کے بعد گزشتہ برس وطن واپس آئے تاہم وطن میں نہ ہونے کے باوجود وہ اِس عرصہ کے دوران ملکی سیاست کا ایک اہم حصہ رہے۔
نواز شریف لندن میں قیام کے دوران مسلح افواج کے سیاسی کردار کے خلاف اواز اٹھاتے رہے، انہوں نے خاص طور پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق آرمی چیف کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ فوج کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی۔
نواز شریف نے ملک کی عدلیہ پر بھی کڑی تنقید کی اور ججز پر ملی بھگت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا وہ بوگس مقدمات کا شکار ہوئے ہیں اور یہ کہ ان کے خلاف بوگس مقدمات کا نتیجہ پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی صورت میں سامنے آیا ہے جس میں کسی بھی وزیراعظم کو آئینی مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔
نواز شریف کیلئے بطور وزیراعظم 2016 میں پاناما پیپرز کی صورت میں خطرات کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں سپریم کورٹ میں ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا تاہم نواز شریف نے کسی بھی طرح کے تمام غیر قانونی کاموں کی تردید کی اور الزامات کو سیاسی سازش قرار دیا مگر 6 جولائی 2018 کو انہیں 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ عدالت کی جانب سے نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی اور داماد کو بھی سزا سنائی گئی،
بی بی سی نے لکھا ہے کہ جب نواز شریف کو جولائی 2018 میں سزا سنائی گئی تو وہ لندن میں موجود تھے جہاں ان کہ اہلیہ زیرِ علاج تھیں، نواز شریف بیٹی کے ہمراہ گرفتاری پیش کرنے کیلئے وطن واپس آئے، اِس کے بعد عمران خان کا دورِ حکومت شروع ہوا جو ہنگامہ خیز رہا اور بالآخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعہ عمران خان کو اقتدار سے نکال دیا۔
عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی سے نواز شریف کیلئے واپسی کی راہ ہموار ہوئی، نواز شریف 2023 میں گھر واپس آئے جو کہ ایک تاریخی واپسی ہے اور اس کے بعد وہ چند مہینوں میں ہی اپنے خلاف تمام مقدمات سے بری ہو گئے ہیں، آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے ان کیلئے اقتدار میں واپسی کا راستہ صاف کر سکتی ہے۔
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق پاکستان میں نواز شریف کی جماعت کے علاوہ کوئی بھی جماعت مکمل اکثریت کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، صرف مسلم لیگ (ن) ہی ایک بار مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار حاصل کر چکی ہے، نواز شریف تین بار برسر اقتدار آنے کے باعث خود کو ایک تجربہ کار لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق نواز شریف پاکستانی معیشت کو مستحکم کرنے اور ملک کو سنبھالنے کا وعدہ کر رہے ہیں تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، پاکستان کو صرف ایک معاشی بحران ہی نہیں بلکہ دیگر کئی مشکلات بھی درپیش ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارہ نے لکھا ہے کہ تجزیہ نگاروں کی جانب سے نواز شریف کے بارے میں فوج کے ساتھ معاہدے کے امکانات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان میں فوج کے حمایت یافتہ سیاسی راہنما کیلئے انتخابی میدان میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔